- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَٱقۡتُلُوهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوهُمۡ وَأَخۡرِجُوهُم مِّنۡ حَيۡثُ أَخۡرَجُوكُمۡۚ وَٱلۡفِتۡنَةُ أَشَدُّ مِنَ ٱلۡقَتۡلِۚ وَلَا تُقَٰتِلُوهُمۡ عِندَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَٰتِلُوكُمۡ فِيهِۖ فَإِن قَٰتَلُوكُمۡ فَٱقۡتُلُوهُمۡۗ كَذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلۡكَٰفِرِينَ (191)
ترجمہ: اور (جس حالت میں وہ خود عہد شکنی کریں اس وقت) ان کو قتل کرو جہاں ان کو پاؤ اور ان کو نکال باہر کرو جہاں سے انہوں نے تم کو نکلنے پر مجبور کیا ہے اور شرارت قتل سے (بھی) سخت تر ہے اور ان کے ساتھ مسجد حرام کے قرب (ونواح) میں (کہ حرم کہلاتا ہے) قتال مت کرو جب تک کہ وہ لوگ وہاں تم سے خود نہ لڑیں ہاں اگر وہ (کفار) خود ہی لڑنے کا سامان کرنے لگیں تو تم (بھی) ان کو مارو ایسے کافروں کی (جو حرم میں لڑنے لگیں) ایسی ہی سزا ہے۔
فَإِنِ ٱنتَهَوۡاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (192)
ترجمہ: پھر اگر وہ لوگ (اپنے کفر سے) بازآجاویں ( اور اسلام قبول کرلیں) تو اللہ تعالیٰ بخش دیں گے اور مہربانی فرمادیں گے۔
وَقَٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٞ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِۖ فَإِنِ ٱنتَهَوۡاْ فَلَا عُدۡوَٰنَ إِلَّا عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ (193)
ترجمہ: اور ان کے ساتھ اس حد تک لڑو کہ فساد عقیدہ (شرک) نہ رہے اور دین (خالص) اللہ ہی کا ہوجاوے۔ اور اگر وہ لوگ (کفر سے) بازآجاویں تو سختی کسی پر نہیں ہوا کرتی بجز بے انصافی کرنے والوں کے۔
ٱلشَّهۡرُ ٱلۡحَرَامُ بِٱلشَّهۡرِ ٱلۡحَرَامِ وَٱلۡحُرُمَٰتُ قِصَاصٞۚ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ عَلَيۡكُمۡ فَٱعۡتَدُواْ عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا ٱعۡتَدَىٰ عَلَيۡكُمۡۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلۡمُتَّقِينَ (194)
ترجمہ: حرمت والا مہینہ ہے بعوض حرمت والے مہینہ کے اور یہ حرمتیں تو عوض معاوضہ کی چیزیں ہیں سو جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور یقین کرلو کہ اللہ تعالیٰ ان ڈرنے والوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ (1)
1 - کفار کے ساتھ جبکہ شرائط جواز کے پائے جاویں ابتداء قتال شروع کرنا درست ہے ۔ 2 ۔ جزیرہ عرب کے اندر کفار کو وطن بنانے کی اجازت نہیں۔
وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِۛ وَأَحۡسِنُوٓاْ إِۛنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ (195)
ترجمہ: اور تم لوگ (جان کے ساتھ مال بھی) خرچ کیا کرو اللہ کی راہ میں اور (اپنے آپ کو) اپنے ہاتھوں تباہی میں مت ڈالو (2) اور کام اچھی طرح کیا کرو بلاشبہ اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں اچھی طرح کام کرنے والوں کو۔
2 ۔ یہ جو فرمایا ہے کہ اپنے ہاتھوں اس قید کا حاصل یہ ہے که باختیار کود کوئی امر خلاف حکم نہ کرے اور جو بلا قصد اختیار کچھ ہو جاوے تو وہ معاف ہے۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَٱقۡتُلُوهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوهُمۡ وَأَخۡرِجُوهُم مِّنۡ حَيۡثُ أَخۡرَجُوكُمۡۚ وَٱلۡفِتۡنَةُ أَشَدُّ مِنَ ٱلۡقَتۡلِۚ وَلَا تُقَٰتِلُوهُمۡ عِندَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَٰتِلُوكُمۡ فِيهِۖ فَإِن قَٰتَلُوكُمۡ فَٱقۡتُلُوهُمۡۗ كَذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلۡكَٰفِرِينَ (191)
ترجمہ: ان سے لڑو جہاں بھی تمہارا اُن سے مقابلہ پیش آئے اور انہیں نکالو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے، (202) مگر فتنہ اس سے بھی زیادہ برا ہے اور مسجد حرام کے قریب جب تک وہ تم سے نہ لڑیں، تم بھی نہ لڑو، مگر جب وہ وہاں لڑنے سے نہ چُوکیں، تو تم بھی بے تکلف انہیں مارو کہ ایسے کافروں کی یہی سزا ہے۔
202- یہاں فتنے کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے، جس میں انگریزی کا لفظ (Persecution) استعمال ہوتا ہے، یعنی کسی گروه یا یا شخص کو محض اس بنا پر ظلم و ستم کا نشانہ بنانا کہ اس نے رائج الوقت خیالات و نظریات کی جگہ کچھ دوسرے خیالات و نظریات کو حق پا کر قبول کر لیا ہے اور وہ تنقید و تبلیغ کے ذریعے سے سوسائٹی کے موجود الوقت نظام میں اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ بلا شبہ انسانی خون بہانا بہت برا فعل ہے، لیکن جب کوئی انسانی گروہ زبردستی اپنا فکری استبداد دوسروں پر مسلط کرے اور لوگوں کو قبول حق سے بجبر رو کے اور اصلاح و تغییر کی جائز و معقول کوششوں کا مقابلہ دلائل سے کرنے کے بجائے حیوانی طاقت سے کرنے لگے، تو وہ قتل کی بہ نسبت زیادہ سخت برائی کا ارتکاب کرتا ہے اور ایسے گروہ کو بزور شمشیر ہٹا دینا بالکل جائز ہے۔
فَإِنِ ٱنتَهَوۡاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (192)
ترجمہ: پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو جان لو کہ اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ (203)
203- یعنی تم جس خدا پر ایمان لائے ہو، اس کی صفت یہ ہے کہ بدتر سے بدتر مجرم اور گناہ گار کو بھی معاف کر دیتا ہے، جبکہ وہ اپنی باغیانہ روش سے باز آجائے۔ یہی صفت تم اپنے اندر بھی پیدا کرو۔ تخلقوا باخلاق اللہ۔ تمہاری لڑائی انتقام کی پیاس بجھانے کے لیے نہ ہو بلکہ خدا کے دین کا راستہ صاف کرنے کے لیے ہو۔ جب تک کوئی گروہ راہ خدا میں مزاحم رہے، بس اسی وقت تک اس سے تمہاری لڑائی بھی رہے، اور جب وہ اپنا رویہ چھوڑ دے، تو تمہارا ہاتھ بھی پھر اس پر نہ اٹھے۔
وَقَٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٞ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِۖ فَإِنِ ٱنتَهَوۡاْ فَلَا عُدۡوَٰنَ إِلَّا عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ (193)
ترجمہ: تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے۔ (204) پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں۔ (205)
204- یہاں فتنہ کا لفظ اوپر کے معنی سے ذرا مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے۔ سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ اس مقام پر فتنے “ سے مراد وہ حالت ہے جس میں دین اللہ کے بجائے کسی اور کے لیے ہو، اور لڑائی کا مقصد یہ ہے کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے اور دین صرف اللہ کے لیے ہو۔ پھر جب ہم لفظ " دین “ کی تحقیق کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عربی زبان میں دین کے معنی ” اطاعت “ کے ہیں اور اصطلاحاً اس سے مراد وہ نظام زندگی ہے جو کسی کو بالا تر مان کر اس کے احکام و قوانین کی پیروی میں اختیار کیا جائے۔ پس دین کی اس تشریح سے یہ بات خود واضح ہو جاتی ہے کہ سوسائٹی کی وہ حالت، جس میں بندوں پر بندوں کی خدائی و فرماں روائی قائم ہو، اور جس میں اللہ کے قانون کے مطابق زندگی بسر کرنا لمن نہ رہے، فتنے کی حالت ہے اور اسلامی جنگ کا مطمح نظریہ ممکن ہے کہ اس فتنے کی جگہ ایسی حالت قائم ہو، جس میں بندے صرف قانون الہی کے مطیع بن کر رہیں۔
205- باز آجانے سے مراد کافروں کا اپنے کفر و شرک سے باز آجانا نہیں، بلکہ فتنہ سے باز آجانا ہے۔ کافر، مشرک، دہریے، ہر ایک کو اختیار ہے کہ اپنا جو عقیدہ رکھتا ہے، رکھے اور جس کی چاہے عبادت کرے یا کسی کی نہ کرے۔ اس گمراہی سے اس کو نکالنے کے لیے ہم اسے فہمائش اور نصیحت کریں گے مگر اس سے لڑیں گے نہیں۔ لیکن اسے یہ حق ہر گز نہیں ہے کہ خدا کی زمین پر خدا کے قانون کے بجائے اپنے باطل قوانین جاری کرے اور خدا کے بندوں کو غیر از خدا کسی کا بندہ بنائے۔ اس فتنے کو دفع کرنے کے لیے حسب موقع اور حسب امکان تبلیغ اور شمشیر، دونوں سے کام لیا جائے گا اور مومن اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے گا، جب تک کفار اپنے اس فتنے سے باز نہ آجائیں۔
اور یہ جو فرمایا کہ اگر وہ باز آجائیں، تو ” ظالموں کے سوا کسی پر دست درازی نہ کرو “ ، تو اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جب نظام باطل کی جگہ نظام حق قائم ہو جائے، تو عام لوگوں کو تو معاف کر دیا جائے گا، لیکن ایسے لوگوں کو سزا دینے میں اہل حق بالکل حق بجانب ہوں گے، جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں نظام حق کا راستہ روکنے کے لیے ظلم و ستم کی حد کردی ہو، اگرچہ اس معاملے میں بھی مومنین صالحین کو زیب یہی دیتا ہے کہ عفو و در گزر سے کام لیں اور فتحیاب ہو کر ظالموں سے انتقام نہ لیں۔ مگر جن کے جرائم کی فہرست بہت ہی زیادہ سیاہ ہو ان کو سزا دینا بالکل جائز ہے اور اس اجازت سے خود نبی سلم نے فائدہ اٹھایا ہے، جن سے بڑھ کر عفو و در گزر کسی کے شایان شان نہ تھا۔ چناچہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے ععقبہ بن ابی معیط اور نضر بن حارث کا قتل اور فتح مکہ کے بعد آپ کا ۱۷ آدمیوں کو عفو عام سے مستثنیٰ فرمانا اور پھر ان میں سے چار کو سزائے موت دینا اسی اجازت پر مبنی تھا۔
ٱلشَّهۡرُ ٱلۡحَرَامُ بِٱلشَّهۡرِ ٱلۡحَرَامِ وَٱلۡحُرُمَٰتُ قِصَاصٞۚ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ عَلَيۡكُمۡ فَٱعۡتَدُواْ عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا ٱعۡتَدَىٰ عَلَيۡكُمۡۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلۡمُتَّقِينَ (194)
ترجمہ: ماہ حرام کا بدلہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا۔ (206) لہٰذا جوتم پر دست درازی کرے، تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ انہیں لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔
206- اہل عرب میں حضرت ابراہیم کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آ رہا تھا کہ ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا، اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین کعبہ امن وامان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں۔ اس بنا پر ان مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا، یعنی حرمت والے مہینے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہ حرام کی حرمت کا لحاظ کفار کریں، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں، تو پھر مسلمان بھی ماہ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔
اس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے پیش آگئی تھی کہ اہل عرب نے جنگ و جدل اور لوٹ مار کی خاطر نسی رکھا تھا، جس کی رو سے وہ اگر کسی کا قاعدہ بنا سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے، تو کسی حرام مہینے میں اس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اس مہینے کی جگہ کسی دوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اس حرمت کا بدلہ پورا کر دیتے تھے۔ اس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفار اپنے نسی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کاروائی کر بیٹھیں، تو اس صورت میں کیا کیا جائے۔ اسی سوال کا جواب آیت میں دیا گیا ہے۔
وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِۛ وَأَحۡسِنُوٓاْ إِۛنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ (195)
ترجمہ: اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ (207) احسان کا طریقہ اختیار کرو کہ اللہ محسنو ں کو پسند کرتا ہے۔ (208)
207- اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مراد اللہ کے دین کو قائم کرنے کی سعی و جہد میں مالی قربانیاں کرنا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کے دین کو سربلند کرنے کے لیے اپنا مال خرچ نہ کرو گے اور اس کے مقابلے میں اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھو گے، تو یہ تمہارے لیے دنیا میں بھی موجب ہلاکت ہوگا اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں تم کفار سے مغلوب اور ذلیل ہو کر رہو گے اور آخرت میں تم سے سخت باز پرس ہوگی۔
208- احسان کا لفظ حسن سے نکلا ہے، جس کے معنی کسی کام کو خوبی کے ساتھ کرنے کے ہیں۔ عمل کا ایک درجہ یہ ہے کہ آدمی کے سپرد جو خدمت ہو، اسے بس کر دے۔ اور دوسرا درجہ یہ ہے کہ اسے خوبی کے ساتھ کرے، اپنی پوری قابلیت اور اپنے تمام وسائل اس میں صرف کر دے اور دل و جان سے اس کی تکمیل کی کوشش کرے۔ پہلا درجہ محض طاعت کا درجہ ہے، جس کے لیے صرف تقویٰ اور خوف کافی ہو جاتا ہے۔ اور دوسرا درجہ احسان کا درجہ ہے، جس کے لیے محبت اور گہرا قلبی لگاؤ درکار ہوتا ہے۔
- کنز الایمان (اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
وَٱقۡتُلُوهُمۡ حَيۡثُ ثَقِفۡتُمُوهُمۡ وَأَخۡرِجُوهُم مِّنۡ حَيۡثُ أَخۡرَجُوكُمۡۚ وَٱلۡفِتۡنَةُ أَشَدُّ مِنَ ٱلۡقَتۡلِۚ وَلَا تُقَٰتِلُوهُمۡ عِندَ ٱلۡمَسۡجِدِ ٱلۡحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَٰتِلُوكُمۡ فِيهِۖ فَإِن قَٰتَلُوكُمۡ فَٱقۡتُلُوهُمۡۗ كَذَٰلِكَ جَزَآءُ ٱلۡكَٰفِرِينَ (191)
ترجمہ: اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو اور انہیں نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تھا اور ان کا فساد تو قتل سے بھی سخت ہے اور مسجد حرام کے پاس ان سے نہ لڑو جب تک وہ تم سے وہاں نہ لڑیں اور اگر تم سے لڑیں تو انہیں قتل کرو کافروں کی یہی سزا ہے،
فَإِنِ ٱنتَهَوۡاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (192)
ترجمہ: پھر اگر وہ باز رہیں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے،
وَقَٰتِلُوهُمۡ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتۡنَةٞ وَيَكُونَ ٱلدِّينُ لِلَّهِۖ فَإِنِ ٱنتَهَوۡاْ فَلَا عُدۡوَٰنَ إِلَّا عَلَى ٱلظَّٰلِمِينَ (193)
ترجمہ: اور ان سے لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر،
ٱلشَّهۡرُ ٱلۡحَرَامُ بِٱلشَّهۡرِ ٱلۡحَرَامِ وَٱلۡحُرُمَٰتُ قِصَاصٞۚ فَمَنِ ٱعۡتَدَىٰ عَلَيۡكُمۡ فَٱعۡتَدُواْ عَلَيۡهِ بِمِثۡلِ مَا ٱعۡتَدَىٰ عَلَيۡكُمۡۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعۡلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلۡمُتَّقِينَ (194)
ترجمہ: ماہ حرام کے بدلے ماہ حرام اور ادب کے بدلے ادب ہے جو تم پر زیادتی کرے اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے کی اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے ساتھ ہے،
وَأَنفِقُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَلَا تُلۡقُواْ بِأَيۡدِيكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِۛ وَأَحۡسِنُوٓاْ إِۛنَّ ٱللَّهَ يُحِبُّ ٱلۡمُحۡسِنِينَ (195)
ترجمہ: اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں ، ہلاکت میں نہ پڑو اور بھلائی والے ہو جاؤ بیشک بھلائی والے اللہ کے محبوب ہیں،
مزید پڑھیں: فرمان الٰہی: 'آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق مت کھاؤ'، قرآن کی پانچ آیتوں کا یومیہ مطالعہ