مرادآباد: سنبھل سے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق کا آج 27 فروری کو انتقال ہوگیا۔ کئی دنوں سے ان کی طبیعت ناساز تھی۔ وہ مرادآباد کے ایک نجی اسپتال میں زیر علاج تھے۔ ان کی عمر 94 برس تھی۔ وہ سب سے پرانے رکن اسمبلی مانے جاتے تھے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمان برق 11 جولائی 1930 کو اترپردیش کے سنبھل میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حافظ عبدالرحمن تھا۔ انہوں نے آگرہ یونیورسٹی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر برق ایک سماجی کارکن اور کاروباری شخص تھے۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن برق اترپردیش کے قدآور رہنماؤں میں سے ایک تھے اور بھارت کی 15ویں لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ تھے۔ ڈاکٹر شفیق الرحمان برق فروری 2014 میں سماج وادی پارٹی میں شامل ہوئے اور سنبھل حلقہ سے 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں بطور امیدوار میدان میں آئے، لیکن وہ الیکشن ہار گیے۔ ڈاکٹر شفیق الرحمان برق 1970 کی دہائی میں سیاست میں کافی سرگرم رہے اور برسوں تک کئی مختلف عہدوں پر فائز بھی رہے۔ ممبر آف پارلیمنٹ کے طور پر یہ ان کی چوتھی میعاد تھی۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے 57 سال قبل اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ڈاکٹر شفیق الرحمن برق مرحوم سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ سے بہت متاثر تھے۔ ان سے رابطے میں آنے کے بعد انہوں نے اپنی سیاسی اننگز کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر برق نے سنبھل میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے بیانات کی وجہ سے سرخیوں میں رہتے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی اپنے اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا تھا۔ شفیق الرحمن برق ہی واحد رکن پارلیمنٹ تھے جنہوں نے پارلیمنٹ میں وندے ماترم کی مخالفت کی تھی۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے شہریت ترمیمی قانون کو لے کر بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کو ہدف تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ملک چلانے کے لیے محبت ہونی چاہیے نفرت نہیں۔ نفرت سے کس کی بھلا ہوئی ہے۔ نفرت کی سیاست سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ عام لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے لئے کون ذمہ دار ہے۔ آئیے محبت کا پیغام دیں جس کی مدد سے نفرت ختم ہو جائے۔ ملک میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
بابری مسجد کے حوالے سے ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے کہا تھا کہ جس دن رام مندر کا افتتاح ہوگیا، اسی گھڑی سے بابری مسجد کو دوبارہ تعمیر کرانے کی جدوجہد کی شروعات کروں گا۔ ان کے اس بیان سے سیاسی حلقوں میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس تقریب میں بالکل نہیں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جس دن مندر کا افتتاح ہوگا، اس دن وہ اللہ سے بابری مسجد کو واپس حاصل کرنے کی دعا کریں گے۔
حلال سرٹیفیکیٹ کے حوالے سے ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے کہا تھا کہ حلال کا معاملہ اسلام کی پالیسی اور اصولوں پر مبنی ہے اور اگر جمعیت علماء کی جانب سے مصنوعات کے لیے حلال کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے تو وہ سراسر جائز ہے اور سرٹیفیکیٹ پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ حکومت کی جانب سے حلال سرٹیفیکیشن کا نشان لگی اشیاء پر روک لگانا مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے لئے ہے۔ 2024 کے انتخابات کی وجہ سے مسلمانوں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے اس قسم کی پالیسی لائی جا رہی ہے۔
ڈاکٹر برق نے مزید کہا تھا کہ اسلام میں جن چیزوں سے روکا گیا ہے وہ حرام ہیں سبھی مسلمان حرام چیزوں سے بچتے ہیں اور مذہب اسلام میں جن چیزوں کو کرنے کی اجازت ہے یا جن چیزوں کا ہم استعمال کر سکتے ہیں وہ چیزیں مسلمانوں کے لیے حلال ہیں اور اگر مسلمان حلال کا نشان لگی مصنوعات کا استعمال کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حکومت نے یہ قدم آنے والے انتخابات میں فائدے کے لئے اٹھایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شفیق الرحمان برق کا انتقال
- رام مندر کے افتتاح کے بعد بابری مسجد کے لیے ایک نئی جد وجہد شروع ہوگی: شفیق الرحمان برق
یکساں سول کوڈ کے حوالے سے ڈاکٹر شفیق الرحمن برق نے کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ سے ملک میں اتحاد قائم نہیں رہے گا۔ اس سے انتشار پیدا ہوگا اور جھگڑے ہوں گے۔ یو سی سی مذہب کا معاملہ ہے۔ اسے سیاست سے دور رکھنا چاہیے تھا۔
اسکولوں میں یوگا ڈے کے حوالے سے ڈاکٹر شفیق الرحمان برق نے کہا تھا کہ جہاں تک یوگا کا تعلق ہے تو یہ اچھی بات ہے، لوگ اپنے گھروں میں یوگا کر سکتے ہیں، پہلے اکھاڑے میں یوگا ہوتا تھا، جہاں پہلوان ورزش کے لیے جاتے تھے، کیا پہلے یوگا نہیں ہوتا تھا، ہاں پہلے ٹریننگ کی کیا کمی تھی؟