ETV Bharat / bharat

مسلمان کو شادی شدہ رہتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا حق نہیں، اسلام اجازت نہیں دیتا: ہائی کورٹ - ISLAM AND LIVE IN RELATIONSHIP

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : May 9, 2024, 6:58 AM IST

ایک اہم فیصلے میں ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے کہا ہے کہ اسلام میں یقین رکھنے والے شخص کو اس کی بیوی کے زندہ رہتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ہائی کورٹ
مسلمان کو شادی شدہ رہتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا حق نہیں، اسلام اجازت نہیں دیتا: ہائی کورٹ (تصویر: ای ٹی وی بھارت)

لکھنؤ: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایک مسلم شادی شدہ مرد کے لیو ان ریلیشن شپ سے متعلق ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں یقین رکھنے والے شخص کو اس کی بیوی کے زندہ رہتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ اسلامی عقیدہ کسی مسلمان کو دوسری عورت کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ اس کا نکاح برقرار ہے۔

جسٹس اے آر مسعودی اور جسٹس اجے کمار سریواستو I کی بنچ نے یہ حکم درخواست گزاروں، ایک ہندو لڑکی اور ایک شادی شدہ مسلمان شخص شاداب خان کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیا، جس میں انہوں نے نہ صرف اُن کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا بلکہ لیو اِن ریلیشن شپ میں رہتے ہوئے سیکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ رسم و رواج بھی قانون کے مساوی ذرائع ہیں اور آئین کا آرٹیکل 21 ایسے رشتے کے حق کو تسلیم نہیں کرتا جس پر رسم و رواج کی پابندی ہو۔ ان تبصروں کے ساتھ، عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ لڑکی کو تحفظ کے ساتھ اس کے والدین کو واپس کیا جائے۔ درخواست گزاروں نے کہا کہ وہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے لیو ان ریلیشن شپ میں رہ رہے ہیں۔ لڑکی کے بھائی نے اغوا کا الزام لگاتے ہوئے بہرائچ کے وشور گنج پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ درخواست میں مذکورہ ایف آئی آر کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ درخواست گزاروں کی پرامن زندگی میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران عدالت کے روبرو یہ بات سامنے آئی کہ شاداب نے 2020 میں فریدہ خاتون سے شادی کی جس سے ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ فریدہ فی الحال ممبئی میں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ اس حقیقت کا سامنا کرنے پر، عدالت نے کہا کہ موجودہ پٹیشن کے ذریعے درخواست گزار اپنے لیو ان ریلیشن شپ کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں، جب کہ درخواست گزار شاداب جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے، اس میں ایک نکاح برقرار رکھتے ہوئے دوسرے کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ کی اجازت نہیں ہے۔

کیس کے حقائق پر غور کرنے کے بعد عدالت نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 21 ایسے معاملات میں تحفظ کا حق فراہم نہیں کرتا جہاں رسم و رواج مختلف عقائد کے حامل افراد کو کسی بھی عمل سے منع کرتے ہیں، کیونکہ آئین کا آرٹیکل 13 بھی رسم و رواج اور روایات کو بھی قانون تسلیم کرتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ چونکہ اسلام شادی شدہ مسلمانوں کو لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے درخواست گزار کو لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کے لیے سیکورٹی حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ آئینی اخلاقیات اور سماجی اخلاقیات کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں امن قائم ہو اور سماجی تانے بانے کو برقرار رکھا جا سکے۔

واضح رہے اسلام میں لیو ان ریلیشن شپ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ نکاح سے قبل کسی مرد یا عورت کے ساتھ ایک ہی مکان میں زندگی گزارنا اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز نہیں ہے۔ اسلام میں یہ بات شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مسلمان مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

لکھنؤ: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایک مسلم شادی شدہ مرد کے لیو ان ریلیشن شپ سے متعلق ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں یقین رکھنے والے شخص کو اس کی بیوی کے زندہ رہتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ اسلامی عقیدہ کسی مسلمان کو دوسری عورت کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ اس کا نکاح برقرار ہے۔

جسٹس اے آر مسعودی اور جسٹس اجے کمار سریواستو I کی بنچ نے یہ حکم درخواست گزاروں، ایک ہندو لڑکی اور ایک شادی شدہ مسلمان شخص شاداب خان کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیا، جس میں انہوں نے نہ صرف اُن کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا بلکہ لیو اِن ریلیشن شپ میں رہتے ہوئے سیکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ رسم و رواج بھی قانون کے مساوی ذرائع ہیں اور آئین کا آرٹیکل 21 ایسے رشتے کے حق کو تسلیم نہیں کرتا جس پر رسم و رواج کی پابندی ہو۔ ان تبصروں کے ساتھ، عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ لڑکی کو تحفظ کے ساتھ اس کے والدین کو واپس کیا جائے۔ درخواست گزاروں نے کہا کہ وہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے لیو ان ریلیشن شپ میں رہ رہے ہیں۔ لڑکی کے بھائی نے اغوا کا الزام لگاتے ہوئے بہرائچ کے وشور گنج پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ درخواست میں مذکورہ ایف آئی آر کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ درخواست گزاروں کی پرامن زندگی میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

سماعت کے دوران عدالت کے روبرو یہ بات سامنے آئی کہ شاداب نے 2020 میں فریدہ خاتون سے شادی کی جس سے ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ فریدہ فی الحال ممبئی میں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ اس حقیقت کا سامنا کرنے پر، عدالت نے کہا کہ موجودہ پٹیشن کے ذریعے درخواست گزار اپنے لیو ان ریلیشن شپ کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں، جب کہ درخواست گزار شاداب جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے، اس میں ایک نکاح برقرار رکھتے ہوئے دوسرے کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ کی اجازت نہیں ہے۔

کیس کے حقائق پر غور کرنے کے بعد عدالت نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 21 ایسے معاملات میں تحفظ کا حق فراہم نہیں کرتا جہاں رسم و رواج مختلف عقائد کے حامل افراد کو کسی بھی عمل سے منع کرتے ہیں، کیونکہ آئین کا آرٹیکل 13 بھی رسم و رواج اور روایات کو بھی قانون تسلیم کرتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ چونکہ اسلام شادی شدہ مسلمانوں کو لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے درخواست گزار کو لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کے لیے سیکورٹی حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

عدالت نے کہا کہ آئینی اخلاقیات اور سماجی اخلاقیات کے درمیان ہم آہنگی برقرار رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں امن قائم ہو اور سماجی تانے بانے کو برقرار رکھا جا سکے۔

واضح رہے اسلام میں لیو ان ریلیشن شپ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ نکاح سے قبل کسی مرد یا عورت کے ساتھ ایک ہی مکان میں زندگی گزارنا اسلامی تعلیمات کے مطابق جائز نہیں ہے۔ اسلام میں یہ بات شادی شدہ اور غیر شادی شدہ مسلمان مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.