نئی دہلی: خوردہ بازار میں گندم اور گندم پر مبنی مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل ڈیڑھ برس سے اضافہ ہورہا ہے۔ رواں برس فروری میں غیرمعمولی طور پر زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے مستقبل قریب میں گندم کی قیمت بلندی پر رہنے کی توقع ہے۔ گندم اور اس کی مصنوعات کی اونچی خوردہ افراط زر، جو گذشتہ برس جولائی سے دوہرے ہندسوں میں ہے، جس کا براہ راست اثر پالیسی کی شرحوں، ریپو اور ریورس ریپو ریٹ پر پڑتا ہے۔ اسی پالیسی کی بنیاد پر بینک آگے لوگوں کو کاروبار، آٹو، ہوم اور نجی لون دیتے ہیں۔
خوردہ مارکیٹ میں گندم اور گندم کی مصنوعات کی قیمتیں اکتوبر 2021 سے بڑھنا شروع ہوئیں۔ تاہم اس وقت یہ کسی کے لیے فرض کرنا مشکل تھا کہ کہ قیمتیں سال بہ سال کی بنیاد پر مزید 14 مہینوں تک بڑھتی رہیں گی، کیونکہ بھارت ایک بڑا گندم اگانے والا ملک ہے جس کے پاس غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کافی اضافی ذخیرہ ہے۔ گندم اور گندم کی مصنوعات کی خوردہ قیمتوں میں مسلسل اضافہ کے بعد صورتحال اس وقت مزید خراب ہوگئی جب گزشتہ برس جولائی میں گندم اور گندم کی مصنوعات کی خوردہ مہنگائی 10.7 فیصد کے دوہرے ہندسے پر پہنچ گئی اور اس کے بعد سے گندم کی قیمتیں دوہرے ہندسوں میں ہی رہیں۔
مزید یہ کہ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں برس جنوری میں گندم اور گندم کی مصنوعات کی خوردہ افراط زر 20 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ وہیں پنجاب میں رواں برس فروری میں غیر معمولی حد تک درجہ حرات میں اضافہ کی وجہ سے مستقبل قریب میں گندم کی قیمتوں میں کوئی کمی کی امید نہیں ہے۔ کنزیمور پرائس انڈیکس پر مبنی افراط زر (CPI) میں گندم اور گندم سے متعلقہ مصنوعات کا مشترکہ وزن 3.89% ہے۔ تاہم دسمبر 2022 اور جنوری 2023 میں خوردہ افراط زر میں ان کا حصہ بالترتیب 11.4% اور 11.0% تھا، جو ملک میں خوردہ افراط زر کی پیمائش کے لیے اہم انڈیکس میں ان کے وزن سے کہیں زیادہ ہے۔ خوردہ افراط زر کے اشاریہ میں دیگر غذائی اشیاء جو اپنے وزن سے زیادہ حصہ ڈال رہی ہیں وہ ہیں دودھ اور دودھ کی مصنوعات، مصالحے اور تیار شدہ کھانے، نمکین، مٹھائیاں وغیرہ۔