چنئی: ایک کاروباری شعبے کے طور پر خلائی تحقیق اس صدی کے آغاز سے پہلے زیادہ موضوع بحث نہیں تھی۔ ایک طرف جہاں ستارے، سیٹلائٹ اور سیارے اسرو اور ناسا کے لیے مخصوص سائنسی موضوعات تھے تو وہیں دوسری طرف وہی ستارے، سیٹلائٹ اور سیارے نجومیوں کے لیے تقریر کی علامت تھے۔ تاہم، حالیہ دنوں میں خلائی سائنس میں کامیابیوں اور میدان میں نجی کھلاڑیوں کے داخلے نے ممالک کے خلائی تحقیق کو سمجھنے میں ایک غیرمعمولی تبدیلی لائی ہے۔
بھارت میں ایسی ہی ایک حالیہ پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ حکومت خلائی تحقیق کے بعض شعبوں میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کی 100 فیصد تک اجازت دے رہی ہے، اس اقدام کا مقصد داخلے کے راستوں کو آزاد بنانا اور ممکنہ سرمایہ کاروں کو خلا میں بھارتی کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دینا ہے۔ اسرو کے سابق ڈائریکٹر اور مون مین آف انڈیا، ڈاکٹر میلسوامی انا دورائی نے ای ٹی وی بھارت کے شنکر نارائنن سودلائی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں خلائی شعبے، اس پر مصنوعی ذہانت کے اثرات اور یہ سیکٹر نوجوانوں کو کیریئر کے بہترین مواقع کیسے فراہم کرتا ہے کے بارے میں بات کی۔
انٹرویو کے اقتباسات ملاحظہ ہوں:
سوال: مرکزی حکومت نے خلائی تحقیق کے کچھ شعبوں میں 100 فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دی ہے۔ آپ کے خیال میں اس سے انڈسٹری میں کیا مثبت تبدیلیاں آئیں گی؟
ڈاکٹر انادورائی: اس کا جواب حالیہ مثالوں سے دیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی ایسا شعبہ ہے جس نے عالمی وبا کے دوران بھی ترقی کی ہے تو وہ ایرو اسپیس انڈسٹری رہی ہے۔ پچھلے 65 سالوں میں لانچ کیے گئے سیٹلائٹس کی تعداد کا 40 فیصد سے زیادہ وبائی مرض کے بعد سے تین سالوں میں لانچ کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر، 90 فیصد سے زیادہ سیٹلائٹس نجی خلائی کمپنیوں جیسے ایلون مسک کی اسپیس ایکس اور ون ویب کے ذریعے بھیجے گئے ہیں۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے یاں خلائی شعبے میں کافی ترقی پسند تحقیق جاری ہے۔ ہم چاند اور مریخ پر خلائی جہاز بھیج رہے ہیں۔ ہم نے بہت سے سیٹلائٹ بنائے ہیں جن کی ہمیں ضرورت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاری تجارتی ترقی میں کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
اگرچہ ہوائی جہاز کسی زمانے میں صرف فضائیہ کے لیے ہوتے تھے لیکن بعد میں وہ عام لوگوں کے لیے بھی نقل و حمل کا ذریعہ بن گئے۔ خلائی شعبے میں بھی تقریباً یہی صورتحال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ جہاں دیگر ممالک اس میں سرفہرست ہیں وہیں بھارت بھی پیچھے نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے ایک تبدیلی لائی ہے تاکہ نجی شعبہ بھی خلائی صنعت میں اپنا حصہ ڈال سکیں جو پہلے صرف حکومت کی ملکیت تھی۔
جب غیر ملکی سرمایہ کاری کی بات آتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ بہتر کارکردگی کی گنجائش موجود ہے۔ تکنیکی طور پر بھارتی حصہ لے سکتے ہیں۔میرے خیال میں اس تبدیلی سے کاروباری کارکردگی بہتر ہوگی اور لانچ پیڈ تمل ناڈو کے کولاسیکرن پٹنم میں قائم کیا جانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ تجارتی سرمایہ کاری دستیاب ہونے پر بھارتیوں کو خلائی تحقیق میں بلندیوں تک لے جانے میں مدد کرے گی۔
سوال: خلائی تحقیق صرف سائنس تک محدود نہیں ہے، سیٹلائٹ کے استعمال میں قومی سلامتی بھی پوشیدہ ہے۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ اس ماحول میں حکومتی مداخلت کے بغیر غیر ملکی سرمایہ کاری کی اجازت دینا ممکن ہے؟
ڈاکٹر انادورائی:یہ ایک چیلنجنگ عمل ہے۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے سیل فون ہوا کرتے تھے جو سکیورٹی اور ذاتی استعمال کے لیے مفید ہے۔ اس میں وہ ڈرون بھی شامل ہیں جو حال ہی میں دراندازی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس سیکٹر کو ریگولیٹ کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ جب بہت کچھ پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو نئی حکمت عملی اور تکنیک کو سامنے لانا ہی پڑتا ہے۔ میرے خیال میں انہیں سیل فون اور ہوائی سفر کی طرح ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور میں تمام تر سرمایہ کاری اور ترقی حکومت تنے تنہا نہیں کر سکتی، نجی تعاون بھی ضروری ہے۔
سوال: اب خلائی سیکٹر بھارت میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو راغب کرے گا اور اس کے نتیجے میں کیریئر کے نئے مواقع فراہم کرے گا، طلباء کو اس شعبے میں کیسے جانا چاہئے؟ اس میں کیریئر بنانے کے لیے انہیں کس طرح کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے؟
ڈاکٹر انادورائی: اس کے لیے آپ کے پاس بی ٹیک مکینیکل، الیکٹریکل، الیکٹرانکس، کمپیوٹر سائنس پروگراموں کے مواقع موجود ہیں۔ پوسٹ گریجویشن میں آپ ایروناٹیکل، ایرو اسپیس جیسے کورسز کا انتخاب بھی کرسکتے ہیں۔ اگر آپ کو اسرو کے انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ترواننت پورم میں پڑھنے کا موقع ملتا ہے، تو آپ کے سامنے ایک روشن مستقبل ہے۔ کورس مکمل کرنے کے بعد آپ سرکاری یا نجی خلائی شعبے میں ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس میں اگر طلبہ اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں تو وہ ناسا اکیڈمی میں پڑھنے کے مواقع حاصل کر سکتے ہیں۔
سوال: انسانوں کو خلا میں بھیجنے کے لیے گگنیان پروجیکٹ کی کیا حیثیت ہے؟