لکھنؤ کا شیعہ طبقہ برسوں سے بی جے پی کے ساتھ کیوں ہے؟ (Video: Etv Bharat) لکھنؤ: لکھنؤ پارلیمانی نشست کی تاریخ بہت ہی دلچسپ رہی ہے۔ یہاں کے بیشتر شیعہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ رہے ہیں۔ یہاں کے شیعہ علماء میں اگرچہ آپسی اختلافات رہے ہوں لیکن بی جے پی کے نام پر متحد ہوجاتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں مولانا کلب جواد مولانا یعسوب عباس اور مولانا سیف عباس مولانا آغا روحی مولانا فرید الحسن نے بی جے پی امیدوار راج ناتھ سنگھ سے ملاقات کرکے حمایت کا اعلان کیا اور نتیجہ سے قبل پیشگی جیت کی مبارکباد دی۔
غور طلب ہے کہ لکھنؤ سے ملک کے سابق وزیراعظم انجہانی اٹل بہاری واجپائی پانچ بار انتخابات میں کامیاب ہوئے، جب کہ تین بار ان کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 1991 سے اب تک کے لکھنؤ کی پارلیمنٹ نشست بی جے پی کے قبضے میں ہے۔ اٹل بہاری واجپائی کے بعد لال جی ٹنڈن کو کامیابی ملی، اس کے بعد اب تیسری بار وزیر دفاع راجناتھ سنگھ انتخابی میدان میں ہیں۔
لکھنؤ کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ اس پارلیمنٹ نشست پر پارٹی سے کم، لوگ امیدوار کی شخصیت پر زیادہ ووٹ ڈالتے ہیں۔ 1963 میں آنند نارائن ملا آزاد امیدوار کے طور پر انتخابی میدان میں تھے۔ لکھنؤ والوں نے انہیں کامیاب بنا کر کے پارلیمنٹ بھیجا تھا۔ انجہانی اٹل بہاری واجپائی کی شخصیت بھی بہت متاثر کن تھی اور لال جی ٹنڈن نے بھی شیعہ سماج کا خوب ساتھ دیا ہے، اب راج ناتھ سنگھ کے تعلق سے یہی کہا جاتا ہے کہ ایک اچھا آدمی غلط پارٹی میں ہے۔
ای ٹی وی بھارت نے لکھنؤ کے کچھ ماہرین سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ لکھنؤ کا شیعہ مسلمان آخر بی جے پی کو کیوں سپورٹ کرتا ہے۔ یوپی کے سابق اطلاعاتی کمشنر سید حیدر عباس رضوی بتاتے ہیں کہ لکھنؤ کا شیعہ مسلمان مکمل طور سے بی جے پی کا سپورٹ نہیں کرتا ہے، اس کی چند مثالیں بھی ہمارے سامنے ہیں۔ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں لکھنؤ کے شیعہ اکثرتی علاقے چوک اور مرکزی حلقہ اسمبلی ہے۔ جہاں سے سماج وادی پارٹی کے دو امیدوار کامیاب ہوئے، شیعہ مسلمانوں نے سماج وادی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ کیا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ 2002 میں بھی بی جے پی کے امیدوار کو شیعہ مسلمان نے ووٹ نہیں کیا تھا اور اس سے قبل اٹل بہاری واجپائی کے شکست کی ایک تاریخ ہے۔ 1984 میں لال جی ٹنڈن کو صرف 35 ہزار ووٹ ملے تھے، جس سے واضح ہے کہ پوری طریقے سے نہیں کہا جا سکتا کہ شیعہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ ہے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ایک بڑا طبقہ ہے جو بی جے پی کو ووٹ کرتا رہا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 2012 میں جب سماج وادی پارٹی کی حکومت بنی اس وقت لکھنؤ کے معروف شیعہ عالم دین ملائم سنگھ کے پاس گئے اور 13 رجب کی چھٹی کی منظوری دلوائی۔ اس کے علاوہ دیگر حکومتیں بھی شیعوں کے حق میں کام کرتی رہی ہیں۔ شیعہ علماء ان کے قصیدے پڑھتے رہے ہیں، لیکن 2014 سے شیعہ مسلمان بی جے پی کے ساتھ ہے لیکن بی جے پی نے شیعہ مسلمانوں کے لیے کوئی خاص کام نہیں کیا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ جو بی جے پی رہنماؤں کے ارد گرد رہتے ہیں ان کا چھوٹا موٹا کام ضرور ہو جاتا ہے، لیکن قومی سطح پر شیعہ مسلمانوں کے مسائل ابھی جوں کے توں برقرار ہیں۔
سماج وادی پارٹی سے ناراضگی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اعظم خان کے تعلق سے جو الزام لگتا ہے کہ انہوں نے شیعہ مسلمانوں پر لاٹھی چارج کروائی تھی لیکن اس سے قبل اعظم خان مولانا کلب جواد کی بہت عزت کرتے تھے۔ ایک بار کا واقعہ ہے جب وہ ایئرپورٹ پر مولانا کو دیکھے تو ان کے ہاتھ سے بیگ چھین لیا اور ان کو کار میں بٹھایا اور پورے عزت و احترام کے ساتھ انہیں گھر روانہ کیا۔ سماج وادی پارٹی کے تعلق سے جو لاٹھی چارج کا واقعہ ہے، اس واقعے میں بی ایس پی سازش کی تھی۔ بی ایس پی نے ہی اس احتجاج کو اسپانسر کیا تھا جس کا واضح مقصد تھا حکومت کو بد نام کرنا۔
اترپردیش کے سابق کارگزار وزیراعلی عمار رضوی نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت اہم سوال ہے کہ لکھنؤ کا شیعہ مسلمان کس طرف جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایک تاریخ رہی ہے کہ لکھنؤ کا شیعہ مسلمان ہمیشہ سے بی جے پی کے ساتھ رہا ہے، اس کے چند وجوہات بھی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کلیان سنگھ کے دور حکومت میں شیعہ مسلمانوں کے جلوس بحال ہوئے، لکھنؤ سے ڈائریکٹ نجف کی فلائٹ راجناتھ سنگھ نے کروائی تھی لیکن مسافروں کی کمی کی وجہ سے وہ فلائٹ بند ہو گئی۔ اس کے علاوہ بھی یہاں کے رکن پارلیمان راجناتھ سنگھ شیعوں کے دکھ غم خوشی سبھی میں شرکت کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان کی مقبولیت پارٹی سے کہیں زیادہ ہے اور کثیر تعداد میں شیعہ مسلمان ان کو ووٹ کرتا ہے۔
وہیں لکھؤ کے معروف شیعہ عالم دین مولانا فرید الحسن بتاتے ہیں کہ جب کورونا کا دور تھا اور لکھنؤ کے لوگ عراق میں زیارت کے لیے گئے تھے، تو راجناتھ سنگھ نے وہاں سے لکھنؤ کے لوگوں کو جدوجہد کر کے بھارت بلایا تھا۔ راجناتھ سنگھ کا شیعہ مسلمانوں پہ بڑا احسان ہے اور یہی وجہ ہے کہ تمام لوگ ان کو متحد ہو کر کے ووٹ کرتے ہیں اور کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: