لکھنوی دوپلی ٹوپی عید اور ہولی میں کیوں استعمال ہوتی ہے - Lucknowi dopalli topi
ٹوپیاں انسانی تہذیب کی قدیم روایت ہیں انسانی تہذیب و ثقافت میں ٹوپیاں اور دستار مختلف صورتوں میں موجود رہی ہیں، بعض ٹوپیاں مذہبی ہوتی ہیں تو بعض سیاسی کہلاتی ہیں بعض فیشن کی ٹوپیاں ہوتی ہیں تو کچھ فرسودہ روایات کی ٹوپیاں شمار کی جاتی ہیں۔
Published : Apr 12, 2024, 4:43 PM IST
لکھنو: قدیم زمانے میں جب انسان ٹوپیوں کی جانب زیادہ دلچسپی نہیں رکھتا تھا اس وقت بادشاہوں کا دور تھا اور بادشاہوں کے زمانے میں دستار ہوا کرتی تھی اور معزز شخصیات کو دستار سے نوازا جاتا تھا جب کسی کو ذلیل کرنا ہوتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ اس کا دستار اتار دیا گیا لیکن رفتہ رفتہ ٹوپیوں کا دور ایا اور ٹوپیوں نے جہاں سیاست میں اپنی پیٹھ بیٹھائی وہیں مذہبی طور پہ بھی ٹوپیوں کی کافی قدر و قیمت ہے۔ اودھ کے اخری تاجدار نواب واجد علی شاہ نے کچھ ایسے رسم و رواج اور ملبوسات ایجاد کیے جس سے مذہب کی شناخت کے بجائے تہذیب اور ادب کا نام دیا گیا جس میں سے ایک' اداب' لفظ کا استعمال ہے جو بلا تفریق ملت و مذہب سبھی لوگ اداب لفظ کا استعمال کرتے ہیں ملبوسات میں انگرکھا کا ایجاد ہے جسے واجد علی شاہ خود زیب کرتے تھے۔
نواب واجد علی شاہ کا ماننا تھا کہ لباس اور کھان پان اور تہذیب و ثقافت سے مذہب کی شناخت ہوئے بغیر انسانیت اور تہذیب کی شناخت ہو اسی لیے انہوں نے دوپلی ٹوپی کا بھی ایجاد کیا تھا اور کہا تھا کہ ایک پلے ہندو ہیں تو دوسرے پلے میں مسلمان ہیں اور ہم انہیں اپنے سر اور انکھوں پر بٹھاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نوابین اودھ نے دوپلی ٹوپی کو پورے زور و شور سے استعمال کیا اور اودھ علاقے میں دوپلی ٹوپی خوب مقبول ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ برس پہلے ہولی کے موقع پر لوگ دوپلی ٹوپیاں پہن کر کے ہولی کھیلا کرتے تھے اور عید کے موسم میں دو پلی ٹوپیوں کی خوب خریداری ہوتی تھی اور عیدگاہ میں دو پلی ٹوپی ہی نظر اتی تھی یہ ایسی ٹوپی ہے جس کو لگانے والے کی مذہب کی شناخت نہیں ہوتی ہے ۔
ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ نے بتایا کہ اودھ کے اخری تاجدار نواب واجد علی شاہ نے کئی رسم و روایت اور شناخت کو سیکولر بنیادوں پر ایجاد کیا تاکہ کسی کی مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے اور گنگا جمنی تہذیب پروان چڑھے اسی کے پیش نظر دوپلی ٹوپی کا ایجاد ہوا جو ہر مذہب اور ہر طبقے اور ہر فرقے کے لوگ استعمال کرتے ہیں اور اپسی بھائی چارہ کو فروغ دیتے ہیں۔
دوپلی ٹوپی کے کاریگر ہارون نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہمارے دادا 1930 سے دوپلی ٹوپی بناتے تھے لیکن اب میں اس کاروبار کو سنبھال رہا ہوں لکھنو میں کپڑوں پر چکن کاری کا کام دوپلی ٹوپی سے شروع ہوا پھر کرتے پہ ایا اور کرتے کے بعد اب ساڑیوں پر اگیا وہ بتاتے ہیں کہ دوپلی ٹوپی کی کئی اقسام ہیں ان میں سے ایک دوپلی ٹوپی میں کنارے کنارے چکن کاری کے کام ہوتے ہیں کچھ ٹوپیوں میں جالی بنی ہوتی ہے تو کچھ ٹوپی پر مکمل کشیدہ کاری ہوتی ہے۔