بنگلورو: بیدر ضلع انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق کرناٹک وقف بورڈ نے ریاست کے تاریخی بیدر قلعے کے اندر 17 یادگاروں کو اپنی ملکیت کے طور پر شناخت کیا ہے۔ یہ جائیدادیں بیدر کے ضلع ہیڈکوارٹر میں واقع قلعے کے اہم نشانات میں سے ہیں۔
بیدر کا قلعہ محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں آتا ہے اور اے ایس آئی وقف بورڈ کی اس کارروائی سے بے خبر ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بیدر قلعہ کے احاطے میں 60 جائیدادوں میں سے وقف بورڈ نے 17 جائیدادوں پر اپنا دعویٰ کیا ہے۔
جن یادگاروں کو وقف بورڈ نے اپنی ملکیت ہونے کا دعویٰ کیا ہے ان میں مشہور 16 کھمبہ مسجد، مختلف بہمنی حکمرانوں کے 14 مقبرے شامل ہیں۔
وقف بورڈ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ابھی تک اے ایس آئی کو نوٹس نہیں بھیجا گیا ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ، "بورڈ اے ایس آئی کو نوٹس کیسے جاری کر سکتا ہے، جو کئی دہائیوں سے تاریخی یادگاروں کا محافظ اور نگراں رہا ہے۔
اہلکار نے الزام لگایا کہ وقف بورڈ کے نام پر بہت زیادہ فتنہ و فساد ہو رہا ہے جس سے مسلم کمیونٹی کی بدنامی ہو رہی ہے۔'' اہلکار نے مزید کہا کہ، جب سے یہ تنازعہ شروع ہوا، ہم نے تمام نوٹس واپس لینے کا فیصلہ کیا، کیونکہ یہ غیر منصفانہ اور غیر قانونی ہے۔
دریں اثنا، وقف ترمیمی بل 2024 پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین جگدمبیکا پال 7 نومبر کو کرناٹک کے ہبلی اور وجئے پورہ کا دورہ کریں گے تاکہ وقف بورڈ کی کارروائی سے مبینہ طور پر متاثر کسانوں سے بات چیت کریں۔
واضح رہے، بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تیجسوی سوریا نے جگدمبیکا پال سے اپیل کی تھی کہ وہ وجئے پورہ ضلع کے کسانوں کو بطور گواہ ان کے زمینی تنازعات پر وقف بورڈ کے ساتھ تبادلہ خیال کرنے کے لیے مدعو کریں۔
29 اکتوبر کو لکھے گئے خط میں، سوریا نے وجئے پورہ ضلع اور آس پاس کے دیگر علاقوں کے کسانوں کے ایک وفد کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات پر روشنی ڈالی اور پال سے درخواست کی تھی کہ وہ کرناٹک کے ان علاقوں کا دورہ کرکے وقف بورڈ کی کارروائی پر شکایات وصول کریں اور کسانوں کی عوامی سماعت کریں۔
یہ بھی پڑھیں: