علی گڑھ:معروف تاریخ دان پروفیسر عرفان حبیب نے میڈیا سے آگرہ کے تاج محل اور بنارس اور متھرا کے مندروں کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ تاج محل ایک مقبرہ ہے۔ یہ محل نہیں ہے۔ یہ رہنے کی جگہ بھی نہیں ہے۔ ایک طرف مسجد ہے اور دوسری طرف مسافر خانہ ہے۔ یہ ایک مکمل مسجد بھی نہیں ہے۔ اس کی حیثیت فارسی تاریخوں میں لکھی ہوئی ہے۔ بادشاہ نامہ میں اس کا ذکر ہے۔ برنیئر نے بھی اسے بیان کیا تھا۔ یہ ایک مقبرہ ہے۔ مقبروں میں عرس کی رسم ہے۔ پتہ نہیں ہندو مہاسبھا کو اس پر اعتراض کیوں ہے۔ بنارس اور متھرا میں مندروں کے انہدام کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اورنگ زیب نے غلط کیا ہے۔ وہ کسی اور جگہ مسجد بنا سکتا تھا۔ لیکن ساڑھے تین سو سالوں سے جو مسجدیں کھڑی ہیں کیا انہیں گرایا جانا اور وہاں پر مندر بنانا کیا صحیح ہے؟
بنارس کی عدالت نے قانون کی پاسداری نہیں کی:
پروفیسر عرفان حبیب سول لائن کے علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ بدر باغ میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ کاشی کے بعد متھرا کا نمبر ہونے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ متھرا اور بنارس دونوں جگہوں پر مندروں کو گرایا گیا۔ تاریخ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ یہ بہت غلط تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس واقعہ کو 300 سال گزر چکے ہیں، اس غلطی کو کسی اور مذہبی مقام کو گرا کر درست نہیں کیا جا سکتا۔ ورشپ ایکٹ 1991 کے بارے میں پروفیسر عرفان حبیب نے کہا کہ وکلاء کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایکٹ کے تحت مذہبی مقامات کی پوزیشن وہی ہونی چاہیے جو 15 اگست 1947 کو تھی۔ بنارس کے فیصلہ میں عدالت نے اس ایکٹ کو قبول نہیں کیا ہے، بنارس کی عدالت نے قانون کی پاسداری نہیں کی۔ اب یہ قانون عدالت میں پاس ہوچکا ہے۔