عالمی یوم طب پر ابن سینا کی شخصیت پر پروگرام کا اہتمام لکھنؤ: لکھنو کے ہوٹل کلارک اودھ میں ہونے والے عالمی یوم طب کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر برائے اقلیتی امور دانش آزاد انصاری نے کہا کہ یونانی طریقۂ علاج سے لوگوں کو قریب کرنے کے لیے ریاستی حکومت کوششیں بھی کر رہی ہے، حکومت کا محکمہ برائے اقلیتی امور بھی اس میں اپنا اشتراک کررہا ہے۔ بریلی میں تقریباً 140 کروڑ کی خرچ سے یونانی میڈیکل کالج بن رہا ہے، جس کا جلد ہی افتتاح ہونے والا ہے۔
انہوں نے کہاکہ بلیا ضلع میں بھی ایک یونانی میڈیکل کالج بنانے کا پرپوژل حکومت اترپردیش میں دے دیا گیا ہے۔ ہم نے یونانی کی یوجی تعلیم کے بعد پی جی کا بھی انتظام کیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی حکومت اترپردیش اور سینٹرل حکومت یونانی میڈیسن کو فروغ دینے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ تمام ہی اضلاع میں عوام کے درمیان بیداری لانے کا کام حکومت کر رہی ہے۔ یونانی کے فروغ کے سلسلہ میں انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ کی جانب سے کی جارہی کوششیں قابل مبارکباد ہیں۔
وزیر اقلیتی امور نے اس بات کا بھی وعدہ کیا کہ وہ 6 مارچ کو عالمی یوم طب منانے کے سلسلہ میں وزیراعلیٰ سے بھی بات کریں گے اور حکیم ابن سینا کے نام سے اسٹامپ کی شروعات بھی کریں گے۔
واضح ہو کہ معروف یوروپین فلاسفی ابن سینا جن کی عالمگیر تصنیف قانون فی الطب جو کہ 6 مارچ 1025 عیسوی میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔ اسی کی یاد میں اور کتاب القانون فی الطب کی اہمیت و افادیت اور یونانی طریقۂ علاج میں اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ(ایشو) ہر سال 6 مارچ کو عالمی یوم طب کے طور پرمناتا ہے۔
ایشو کے جنرل سکریٹری محمد خالد نے بتایا کہ ساتویں صدی تک یوروپ کے تمام ہی میڈیکل کالجز کے نصاب میں قانون فی الطب کو اہمیت کے ساتھ شامل گیا تھا۔ دنیا کی تقریباً سبھی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی کیا گیا۔ اسی کی یاد میں ہم ہر سال عالمی یوم طب کے طور پر یہ پرورگرام کرتے ہیں۔ اس موقع پر ہمارا who سے مطالبہ ہے کہ 6 مارچ کو عالمی یوم الطب کے نام سے منظوری دے۔
ڈاکٹر نفیس خان، ڈپٹی ڈائریکٹر، سی آر آئی نے پروگرام میں اپنی گفتگو رکھتے ہوئے کہا کہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ آج قانون فی الطب کی تاریخ اشاعت کے دن انسٹی ٹیوٹ فار سوشل ہارمونی اینڈ اپلفٹمنٹ کی جانب سے جو پروگرام ہو رہا ہے، اس کے لیے ایشو کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں۔ ابن سینا ایک عالمگیر شخصیت کے مالک تھے، آپ کا وجود ساری دنیا کے لیے باعث فخر ہے۔ آپ کا اصل میدان فلسفہ و طب تھا۔ آپ کو انسائیکلوپیڈیا آف میڈیسن بھی کہا جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سینٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن اس جانب خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ کونسل نے اپنی لائبریری میں گوشۂ ابن سینا قائم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ کونسل نے قانون فی الطب کو کئی زبانوں میں شائع بھی کروایا ہے۔
پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ایشو کے سرپرست مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے کہا کہ ہر زندہ قوم کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنے آباء و اجداد کو یاد رکھتے ہیں اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی خدمات کو اگلی نسل تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ ایشو اس جانب توجہ دیتے ہوئے ہر سال 6مارچ کو ابن سینا کی یاد میں عالمی یوم طب مناتا ہے ۔
مولانا نے کہا کہ ابن سینا انتہائی ذہین تھے، انہوں نے صرف 10 سال کی عمر میں پورا قرآن حفظ کر لیا تھا۔ ابن سینا کو پوری دنیا فادر آف میڈیسن کے نام سے جانتی ہے۔ قرآن میں بار بار اللہ تعالیٰ لوگوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ دنیا میں موجود تمام چیزوں پر غور و فکر کریں ، ابن سینا نے اسی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے دنیا کی چیزوں پر غور کیا اور یونانی طریقۂ طب کو متعارف کرایا۔
پروگرام میں بطور مہمان شریک ڈاکٹر فاروق اے ڈار، فیکلٹی یونانی میڈیسن، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے پریژنٹیشن میں بتایا کہ قانون فی الطب کی موجودہ حالات میں بھی وہی مطابقت ہے، جو اس وقت تھی جب قانون فی الطب کو لکھا گیا تھا۔جب بھی کوئی سائنس آگے بڑھتی ہے وہ پچھلی چیزوں کو کالعدم یا غیرمطابق کردیتی ہے لیکن یونانی طب کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ یونانی طب آج بھی اپنی اصل صورت میں قائم ہے۔ اس کا متبادل کوئی نہیں آسکا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ماڈرن طب نے تمام مسائل کا حل نہیں دیا ہے اور یونانی طب کے اصول اور نسخے اتنے مضبوط ہیں کہ وہ آج بھی سودمند ہیں اور ان کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ کورونا کے دوران لوگ خودبخود طب یونانی کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کا خوب استعمال کیا۔ ابن سینا پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے کوارنٹین کو متعارف کرایا، قوت مدافعت کے سلسلہ میں سب سے زیادہ دوائیں یونانی طب میں ہیں۔
پروگرام کی صدارت کرتے ہوئے ایشو کے چیئرمین انیس انصاری نے کہا کہ یونانی کا طریقۂ علاج انتہائی پرانا ہے، ایلو پیتھک نے دھیرے دھیرے خود کو بہت اپڈیٹ کیا ہے۔ یونانی طب کو بھی چاہیے کہ اپنے طریقۂ علاج میں ریسرچ کرے.جدید تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے خود کو فروغ دے، دوسری پیتھالوجی سے بھی استفادہ حاصل کرنا چاہیے اور انہیں اپنانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:لکھنؤ: مولانا آزاد کی برسی پر سمینار کا انعقاد
اس موقع پر ڈاکٹر کوثر عثمان نے بتایا کہ ہمیں اپنی صحت اور غذائیت پر خصوصی توجہ دینا چاہیے۔ آج تیسرے آدمی کو بلڈ پریشر اور ذیابیطس کی بیماری ہے۔ صحت کے سلسلہ میں ہم لوگ لاپروائی برتتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی سے تمام قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ صرف فضائی آلودگی اگر کم ہوجائے تو ہم کئی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ابھی تک ہندوستان کے ہی نارتھ ایسٹ علاقہ میں طب یونانی متعارف نہیں ہے اور نہ اس علاقہ میں کوئی ریسرچ ہوا ہے۔ طب یونانی کے ریسرچرس وہاں بھی ریسرچ کریں ممکن ہے کہ وہاں کوئی ایسی جڑی بوٹی مل جائے جو اس طب میں ایک اہم نسخہ ثابت ہو۔