سری نگر: جموں و کشمیر میں پولیس نے چھ لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔ ان پر سوشل میڈیا پر 'تضحیک آمیز' تبصرے کرکے فرقہ وارانہ بدامنی کو ہوا دینے کا الزام ہے۔ اس سلسلے میں جموں و کشمیر پولیس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ تمام کے خلاف انڈین سول سیکورٹی کوڈ (بی این ایس ایس) کی دفعہ 126 اور 170 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے اور انہیں سری نگر سینٹرل جیل بھیج دیا گیا ہے۔
نئے قانون کے تحت پولیس کو کسی بھی شخص کو امن میں خلل ڈالنے کے شبہ میں حراست میں لینے کی اجازت ہے۔ پولیس ترجمان نے لوگوں کو ایسے مواد پوسٹ کرنے یا شیئر کرنے سے خبردار کیا جو عوامی ہم آہنگی کو متاثر کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
اہلکار نے کہا، "کوئی بھی فرد اسی طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا، جس میں فرقہ وارانہ مواد کو تقسیم کرنے یا عوامی ہم آہنگی کو خراب کرنے کے ارادے سے پوسٹ کرنا یا شیئر کرنا شامل ہے، اسے انہی نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔" فی الحال پولیس نے حراست میں لیے گئے لوگوں کے نام ظاہر نہیں کیے ہیں۔
مذہبی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا
یہ واقعہ سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پیش آیا۔ ویڈیو میں ایک شخص کو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کرتے ہوئے دیکھا جا رہا ہے جس پر وادی میں شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مذہبی تنظیموں کے ایک گروپ متحدہ مجلس علمائے (ایم ایم یو) نےکشیدگی کو ہوا دے کر خطے میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارے کو خراب کرنے کی کوششوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
'معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوشش'
ایم ایم یو نے کہا، "حال ہی میں ایک شخص کی طرف سے مبینہ طور پر صحابہ کرام اور خلفائے راشدین کے خلاف کیے گئے توہین آمیز ریمارکس انتہائی افسوسناک اور ناقابل قبول ہیں۔" وادی کے ممتاز عالم میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں ایم ایم یو نے کہا کہ یہ بیانات نہ صرف اسلامی تعلیمات کی روح کے خلاف ہیں بلکہ یہ کمیونٹی کو تقسیم کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔
انہوں نے مذہبی اسکالرز اور تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اپنے پیروکاروں کی عقیدے کے تقدس کو برقرار رکھنے اور بھائی چارے کی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے رہنمائی کریں۔ انہوں نے کہا، "ہم حکام سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ اس طرح کے اشتعال انگیز ریمارکس کرنے والے لوگوں کے خلاف فوری اور مناسب کارروائی کی جائے تاکہ علاقے میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مزید متاثر ہونے سے روکا جا سکے۔"