گیا : مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا کے شعبہ اردو کے زیر اہتمام ' اُردو میں مہجری ادب کے ابعاد ' کے موضوع پر خصوصی لیکچر کا اہتمام ہوا۔ جسکے مہمان خصوصی اُردو ادب کی معروف شخصیت اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے اردو کے استاد پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد اکرام الدین تھے۔ اس موقع پر لیکچر کے آغاز سے قبل صدر شعبہ اردو مگدھ یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ابو اللیث شمسی نے مہمان خصوصی کو گلدستہ پیش کر انکا والہانہ استقبال کیا اور ڈاکٹر پروفیسر ضیاء اللہ انور نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہا کہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ششی پرتاپ شاہی کی سرپرستی اور صدر شعبہ اردو ڈاکٹر ابو اللیث شمسی کی صدارت میں شعبہ اردو مسلسل انتہائی اہم موضوعات پر خصوصی لیکچر کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہے۔
انہوں نے اس دوران لیکچر کے موضوع پربھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ جبکہ نظامت کے فرائض کو ڈاکٹر پروفیسر ترنم جہاں نے بحسن وخوبی انجام دیا۔ ڈاکٹر پروفیسر سیمی اقبال نے مہمان خصوصی کا مختصر تعارف پیش کیا، وہیں مہمان خصوصی ڈاکٹر پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے لیکچر کے موضوع مہجری ادب کے حوالے سے بہت ہی معلوماتی اور پر مغز گفتگو کی۔ ساتھ ہی مہجری ادب کیا ہے ؟ اور اسکی کیا خصوصیات ہیں, ان پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اردو میں مہجری ادب کا ابھی واضح تصور ابھر کر نہیں آیا ہے۔ اسلیے نئی نسل کے ریسرچ اسکالرز کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مہجری ادب پر انگریزی اور عربی میں نمایاں تحقیق ہوئی ہے تاہم اردو میں مہجری ادب پر تحقیق ابھی کشادہ ہے۔ مہجری ادب کی تاریخ اور فروغ پر کہا کہ جنہوں نے ترک وطن کیا اور جہاں شہریت اختیار کی، ان لوگوں نے اپنی زبان، تہذیب و ثقافت نہیں چھوڑی، ایسے لوگوں کی وجہہ سے مہجری ادب کو بڑھاوا ملا ہے۔
پروفیسر خواجہ اکرام الدین نے دوران لیکچر تہذیب و ثقافت کے ساتھ انہوں نے الفاظ کے سفر کا بھی تذکرہ کیا اور کہا جس طرح انسانوں کے ساتھ اسکی تہذیب و ثقافت سفر کرتی ہے۔ اسیطرح الفاظ بھی سفر کرتے ہیں بعض اوقات الفاظ کے سفر کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ الفاظ اپنی اصل شکل و صورت سے الگ ہو جاتے ہیں' اسکی ایک مثال انہوں نے بھارت میں ایک عام لفظ ' میہرارو' کی پیش کی۔ جس تعلق سے انہوں نے کہا کہ بادشاہ اپنی بیگمات کو خوش کرنے کے لئے' ماہ رو' لفظ کا استعمال کرتے تھے۔ جس کا معنی ہوتا ہے چاند سا چہرا۔ لیکن جب وہ لفظ عوامی سطح پر استعمال ہونا شروع ہوا تو اسکی اصل شکل بدل گئی۔ ماہ رو لفظ میہرارو ہو گیا۔ انہوں نے اسی طرح کئی اور مثالیں دیکر الفاظ کی ہجرت کا ذکر کیا اور کہا کہ چونکہ انسانوں کے ساتھ الفاظ بھی سفر کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج دنیا میں ایک جنگ اپنی ثقافت اور ادب کو بچانے کی بھی ہورہی ہے۔ گویا کہ مہجری ادب میں کئی چیزوں کی شمولیت ہوتی ہے، اس میں یادوں کا کرب ہوتا ہے، تہذیبی تصادم ہوتا ہے تہذیبی تحفظ کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس زبان میں ادب عالیہ ہوگا۔ اس کے ادب کا خاتمہ نہیں ہوگا، جیسے سنسکرت ہندوستان کی سب سے قدیم زبان ہے بلکہ یوں کہیں کہ یہ ہندوستانی زبانوں کی ماں ہے، اس نے کئی زبانوں کو وجود بخشا ہے لیکن آج کے بول چال کی زبان میں نہیں ہے باوجود کہ زبان زندہ ہے۔ اس دوران انہوں نے اردو کی مقبولیت اور عالمی سطح پر بولی جانے والی زبانوں کی پوزیشن مختلف سروے کی روشنی میں اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں مقبول ترین زبانوں میں آج اردو چوتھے نمبر پر ہے اور آج یہ زبان کم و بیش 72 ملکوں میں تہذیب و ثقافت کی بنیاد سفر کر رہی ہے۔
شعبہ اردو نے اچھے موضوع کا کیا انتخاب
جبکہ اس موقع پر مگدھ یونیورسٹی کے آئی قیو اے سی کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر مکیش کمار نے شعبہ اردو کی سراہنا کی اور ساتھ ہی اُنہوں نے مہمان خصوصی پروفیسر ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ شعبہ اردو نے انتہائی اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے جس سے طلباء کو بڑا فائدہ ہوگا۔ ساتھ ہی اُنہوں نے بھی موضوع کی روشنی میں اپنے تاثرات کے دوران کہا کہ زبان اپنے ساتھ تہذیب و ثقافت لیکے چلتی ہےConclusion:وہیں اس موقع پر شعبہ فلسفہ کے صدر ڈاکٹر جاوید انجم نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور انہوں نےطلبہ وطالبات کو کتابوں کے مطالعہ پر زور دیا ، خصوصی لیکچر میں پروفیسر ڈاکٹر شاہد رضوی سابق صدرشعبہ اردو، ڈاکٹر احمد صغیر، ڈاکٹر امتیاز کے علاوہ بڑی تعداد طلبہ و طالبات کی موجود تھی۔