ممبئی: لوک سبھا انتخابات 2024 کے دوران بہت سے مقامات پر مسلم امیدواروں کے ٹہرنے کی وجہ سے خود مسلم امیدواروں کو یا تو نقصان پہنچا، یا ان امیدواروں کی وجہ سے راست طور پر کسی اور پارٹی کے امیدوار کو فائدہ پہنچا۔ ممبئی میں بھی کچھ اس طرح کا معاملہ پیش آیا ہے۔ جہاں بغیر کسی حکمت عملی کے کثیر تعداد میں مسلم امیدواروں کے ٹہرنے سے مسلمانوں کے ووٹ ضائع ہوگئے۔
مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما وارث پٹھان نے انتخابات کے قبل دعوی کیا تھا کہ مسلم امیدوار کو ٹہرانے سے متعلق انہیں پچاسوں فون آگئے اور ان کے مطابق مسلمانوں نے ان کی بہت منت سماجت کی جس کے بعد بھاری اکثریت کی فتح کا خود ساختہ اعلان انہوں نے اِنتخاب سے پہلے ہی کردیا تھا۔۔ یہ دعویٰ 3 مئی کا ہے۔۔جب وہ مجلس کے اُمیدوار کا پرچہ نامزدگی داخل کر رہے تھے۔۔اس دوران ان کے کانفیڈنس کا لیول آسمان پر تھا۔۔لیکن موجودہ حقیقت کیا ہے یہ جاننے کے بعد آپ دانتوں تلے اُنگلیاں دبالیں گے۔۔یہی سبب ہے کہ عوام کو مخالفین وارث پٹھان کو نابالغ سیاسی رہنما کے لقب سے مخاطب کرتے ہیں۔
وسطی شمالی ممبئی سے مجلس اتحاد المسلمین کے اُمیدوار رمضان چودھری کو محض 1531 ووٹ ملے۔۔یہ اعدد و شمار صرف مجلس کی حیثیت نہیں بیان کررہے ہیں بلکہ یہ ثابت کرتے ہیں کی دور حاضر میں یا آنے والے اسمبلی اتنخاب میں مجلس ووٹ کٹوا کا بھی کردار ادا کرنے سے قاصر رہے گی۔ حالانکہ اس سے پہلے مجلس اتحاد المسلمین نے بھارت کی کئی ریاستوں میں بر سر اقتدار حکومت کی سنجیونی بوٹی بن کر کانگریس اور دوسری سیاسی پارٹیوں کو جم کر نقصان پہنچایا ۔۔کئی لیڈران ابھی بھی مجلس کے سبب ذلت بھری شکشت کا صدمہ نہیں برداشت کر پا رہے ہیں۔
رمضان چودھری کے ساتھ ساتھ ریاست میں امتیاز جلیل نے بھی اپنی سیٹ گنوا دی حالانکہ اُنہوں نے مہاراشٹر میں مجلس کی لاج رکھ کی تھی جسے وارث پٹھان جیسے کچے سیاسی رہنماؤں نے بہت پہلے گنوا دی تھی۔۔۔یہ رہی بات مجلس اتحاد المسلمین کی۔ دور حاضر میں مجلس اپنے آپ کو مسلمانوں کا سب سے بڑا قائد ہونے کا دعویٰ کرتی ہے وہ الگ بات ہے کہ مسلمان اب سمجھ چکا ہے کہ کون قائد ہے اور کون ووٹ کٹوا۔ اسی لیے وارث پٹھان کے دعوے پر پوری طرح سے پانی پھر گیا۔