نئی دہلی:سال 1998 میں محمد عامر خان کو راہ چلتے اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد تقریباً 14 برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے بغیر کسی جرم کے انہیں قید و بند کی صعوبتیں جھیلی پڑی۔ اس دوران عامر کے والد کا انتقال ہو گیا اور والدہ لقوے کے مرض میں مبتلا ہو گئیں۔ آخر کار 14 برس کا بنواس پورا ہوا اور انہیں عدالت سے باعزت رہا کیا گیا۔ ان ہی 14 سالوں پر مشتمل ایک کتاب آتنک واد کا فرضی ٹھپا محمد عامر خان کی زندگی پر لکھی گئی، جس اس ہندی زبان میں سماجی کارکنان کی موجودگی میں پریس کلب آف انڈیا میں رسم اجرا کیا گیا۔ اس موقع پر محمد عامر خان نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
محمد عامر خان کی کتاب 'آتنکواد کا فرضی ٹھپا' کی رسم رونمائی - Aatankwad
Aatankwad Ka Farzi Thappa Book Unveiled: محمد عامر خان نے رسم رونمائی کے دوران کہا کہ یہ کتاب صرف میری زندگی کے عکاسی ہی نہیں کرتی بلکہ میرے جیسے ان تمام لوگوں کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جنہیں بغیر کسی جرم کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔
Published : Mar 11, 2024, 5:39 PM IST
|Updated : Mar 14, 2024, 4:48 PM IST
محمد عامر خان نے رسم رونمائی کے دوران کہا کہ یہ کتاب صرف میری زندگی کے عکاسی نہیں کرتی بلکہ میرے جیسے ان تمام لوگوں کی زندگی کی عکاسی کرتی ہے جنہیں بغیر کسی جرم کے سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو بغیر کسی جرم کے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا ہے اور جب وہ باعزت بری ہوکے باہر آتے ہیں تو ان کے ساتھ سماج کے ذریعہ کیے جانے والا برتاؤ صحیح نہیں ہوتا۔ اس دوران جو کچھ عامر کے اہل خانہ کو جھیلنا پڑا تھا وہ نہیں چاہتے کہ وہی سب دوسرے لوگوں کو بھی چھیلنا پڑے۔ اسی لیے میں اپیل کرتا ہوں کہ ایسے لوگوں کے اہل خانہ کی مدد کریں اور انہیں طعن وتشنیع کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
اس موقع پر دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر نندیتا نارائن نے کہا کہ یہ بے حد ضروری کتاب ہے اور اسے انگریزی زبان میں سب سے پہلے 2016 میں شائع کیا گیا تھا اس کے بعد کئی ہندوستانی زبانوں میں اس کا ترجمہ کیا جا چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عامر کو ایک فرضی کیس میں پھنسایا گیا۔ اس دوران عامر 14 برسوں تک سلاخوں کے پیچھے رہے لیکن انہوں نے کبھی امید نہیں ہاری اور آخر کار انہیں کامیابی ملی اور وہ با عزت رہا ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کو نافذ کرنے والی ایجنسیاں اپنی من مرضی کر رہی ہیں اور کوئی جواب دہی نہیں ہے۔ ایسے کیسز میں چاہیے کہ ان کی جواب دہی مانگی جائے۔
وہیں سماجی کارکن نوشرن کور نے بتایا کہ ایک ڈیٹا کے مطابق 80 فیصد بھارتی جیلوں میں قیدی ایسے ہیں جن کے کیسز ابھی زیر التوا ہیں. وہیں 30 فیصد قیدی مسلمان ہیں. جب کہ مسلمانوں کی آبادی محض 14 فیصد ہی ہے۔ 50 فیصد قیدی 18 سے 34 سال کی عمر کے درمیان ہیں جب کہ 42 فیصد قیدی دسویں سے بھی کم تعلیم حاصل کیے ہوئے ہیں۔ سینیئر ایڈووکیٹ ورندہ گروور نے بتایا کہ ہمارے قانونی نظام میں انصاف حاصل کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے جب کہ عوام کا یہ بنیادی حق ہے جس کی گارنٹی سرکار کو دینی ہوتی ہے لیکن ہماری سرکار یہ گارنٹی دینے میں ناکام ہے۔ عامر خان کا کیس اکلوتا کیس نہیں ہے جسے 14 برس کے بعد انصاف ملا ہو بلکہ ایسے ہزاروں کیسز ہیں جن میں لوگ ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں اور ان کے پاس اپنی ضمانت کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔