لکھنؤ:پان لکھنوی تہذیب و ثقافت اور نفاست کا اہم حصہ رہا ہے۔ بنارسی پان کو اگرچہ موجودہ دور میں زیادہ شہرت حاصل ہوئی لیکن لکھنوی پان نزاکت اور نفاست کی وجہ سے منفرد شناخت رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے لکھنؤ کے لوگ پان کھاتے نہیں ہیں بلکہ پان کا شوق کرتے ہیں۔ لکھنو میں پان کھانے کے لیے متعدد برتن کا بھی استعمال ہوتا ہے جس میں پان دان، خاصدان اور اغلدان شامل ہوتا ہے۔
لکھنوی پان سفید مائل سبز ہوتا ہے جب کہ بنارسی پان زرد ہوتا ہے۔ بنارسی پان کھانے کے لیے مشقت کرنی پڑتی ہے جب کہ لکھنؤی پان منہ میں ڈالتے ہی گھل جاتا ہے۔ بنارسی پان میں قدرے بڑے اور سخت ڈلی اور عام چونا استعمال کیا جاتا ہے جب کہ لکھنؤ کے پان میں باریک سپاری اور کریم نما چونا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ پان بغیر کسی مشقت کے منہ میں گھل جائے۔
لکھنؤ کے مشہور ادیبوں میں سے ایک عبدالحلیم شرار اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ لکھنؤ کی ثقافت میں پہلی ترقی پان کی ہوئی۔ پان کے پتوں کو پہلے بہتر کیا گیا۔ مہوبا کے پان قدرتی طور پر بہت اچھے تھے لیکن اس وقت لکھنؤ میں بھی پان کی کاشت شروع ہو گئی تھی۔ پان بیچنے والے پان کے پتوں کو زمین میں گاڑ دیتے تھے تاکہ اس کا کچا پن دور ہو جائے۔ اس سے پتے سفیدی مائل ہو جاتے تھے اور کسیلا پن بھی ختم ہو جاتا تھا۔ اسے بیگم پان کہا جاتا ہے وہ اس لیے کہ یہ بہت نرم اور ذائقے میں اچھا تھا۔
نوابی خاندان سے تعلق رکھنے والے نواب مسعود عبداللہ نے ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ نوابین اودھ کے دور میں پان لگانے کے لیے کچھ مخصوص افراد رکھے جاتے تھے جو پوری نزاکت اور نفاست کا خیال رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد کے لیے میری ماں پان لگاتی تھیں اور وہ اس قدر نفاست کے ساتھ پان لگاتی تھیں کہ پان کی پتے میں جو نسیں موجود ہوتی ہے اسے بھی نکال دیتی تھیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس نفاست کے ساتھ لکھنؤ کے لوگ پان کا شوق کرتے تھے۔