حیدرآباد،(پریس نوٹ): ہمیں تعلیم کا سرسری نہیں بلکہ گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنا ہوگا۔ تعلیم جہاں ایک تصور ہے وہیں یہ ایک نظام بھی ہے۔ تصور کے طور پر تعلیم میں جہاں مثالیت اور اقدار کی بات ہوتی ہے وہیں نظام کے طور پر اس میں تاریخ اور سماجی حالات پنہاں ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پدم شری پروفیسر کرشنا کمار نے کیا جو کہ قومی کونسل برائے تعلیمی تحقیق و تربیت (این سی ای آر ٹی) کے سابقہ ڈائرکٹر ہیں۔
وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں یومِ آزاد یادگاری خطبہ دے رہے تھے۔ ان کے خطبہ کا عنوان ”اعلیٰ تعلیم اور اس کو درپیش چیلنجس“ تھا۔ اس پروگرام کی پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ اس موقع پر اردو کے دو صحافیوں محمد رشید الدین، بیوریو چیف روزنامہ سیاست اور واجد اللہ خان، یو این آئی اردو کو ان کے صحافت میں دیرینہ خدمات پر ”ستارہ صحافت“ ایوارڈ دیا گیا۔
پروفیسر کرشنا کمار نے اپنے خطاب میں کہا کہ تمام لوگوں کی طرح ان کا بھی خیال تھا کہ بنیادی تعلیم کی اہمیت اعلیٰ تعلیم سے زیادہ ہے لیکن جب انہوں نے پروفیسر محمود ممدانی کے نقطہ نظر کو سنا تو انہوں نے بھی اپنا نظریہ بدل دیا۔
ان کے مطابق بنیادی تعلیم فراہم کرنے والے اساتذہ کی تربیت اعلیٰ تعلیم کے مدارس میں ہوتی ہے۔ اگر کوئی استاد کسی اچھے کالج سے ٹیچر ایجوکیشن کی ڈگری حاصل کرتا ہے تو وہ اپنے طلبہ کی بہترین تربیت کرسکتا ہے۔ کیونکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے دوران تدریس کے بہترین طریقے سیکھ کر آتا ہے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ بنیادی تعلیم کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے اعلیٰ تعلیم میں اعلیٰ کا مطلب کو کسی بھی موضوع کو ”گہرائی سے سمجھنا“ قرار دیا اور کہا کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہر موضوع کو گہرائی کے ساتھ سمجھایا جاسکتا ہے۔ اس پر بحث ہوسکتی ہے تاکہ اس موضوع پر معلومات کے مزید دریچے کھولے جاسکیں۔ یہاں جلد بازی نہیں ہوتی ہے، نہ ہی ڈر یا خوف ہوتا ہے۔ جو علم کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ انہوں نے دورِ حاضر میں جامعات ہورہے جز وقتی ملازمین کی بڑھتی اکثریت کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ایک چیلنج قرار دیا۔