علی گڑھ:زعفرانی سیاست کا اثر کہا جائے یا پھر ایک خاص فکر کے لوگوں کا ایک خاص مذہب کے لوگوں کے تئیں نفرت۔ وہیں مختلف مقامات پر شدت پسندوں کی جانب سے نماز کی ادئیگی کے مقام کو لے کر ہنگامہ کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں ضلع انتظامیہ کی ہرممکن کوشش رہتی ہے نماز سڑکوں پر نہ ہو، وہ اسی فکر میں کافی پریشان رہتا ہے کہ کہیں نماز سڑک پر نہ ہو جائے۔
انتظامیہ کی اس کوشش میں ہمیشہ مسلمانوں نے مدد کی اور حکومت کی گائیڈ لائن پر عمل کی ہے، لیکن اس کے باوجود لوگوں کے ذہن میں ایک بات مسلسل ٹکراتی ہے، کہ کیا یہ حکومت کا دہرہ رویہ نہیں ہے کہ حکومت کی گائیڈ لائن پر انتظامیہ ایک ہی طبقہ پر سختی سے عمل کرتی ہے۔ وہیں دیگر طبقہ کی مذہبی تقریبات کا کوئی مطلب نہیں ہوتا، جبکہ نماز مقررہ وقت پر دس منٹ میں ادا ہوجاتی ہے لیکن انتظامیہ کو اس سے پریشانی بھی ہوتی ہے۔
اس سلسلہ میں عید سے قبل مختلف لوگوں نے ضلع انتظامیہ سے ملاقات کر اپنی بات رکھی تھی۔ وہیں اس حوالے سے حکومت اور انتظامیہ کے دہرے رویہ کو لے کر کہیں نہ کہیں آواز اٹھنے لگی اور احساس ہونے لگا ہے۔
سماجی کارکن معین الدین نے کہا کہ عید سے پہلے مسلمان عید کی تیاری میں لگا ہوا تھا، لیکن انتظامیہ عید الفطر کی نماز کے لیے ان تیاریوں میں تھا کہ کسی بھی حالت میں عید کی نماز سڑک پر نہ ہو، جبکہ مسلمانوں نے اس حوالے سے انتظامیہ کا ساتھ دیا۔ جس کے نتیجہ میں انتظامیہ کو گائیڈ لائن پر عمل کرانے میں کامیابی حاصل ہوتی ہے، لیکن وہیں اسی گائیڈ لائن کے حوالے سے دوسرے طبقہ کے تئیں انتظامیہ کا نظر انداز کرنے کا رویہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔