گیا: خدمت خلق کا جذبہ ہو تو عمر اور پیسے خرچ کرنے کی حد اور اہمیت نہیں ہوتی۔ خدمت کا شعبہ اور اس کے طریقے کار مختلف ہو سکتے ہیں۔ بس آپ کے دل میں مدد کرنے کا جذبہ پیدا ہو اور شرط یہ کہ وہ عمل صاف نیت کے ساتھ ہو۔ گیا شہر کے پنچایتی اکھاڑا کے رہائشی 95 سال کے احمد حسین اس کی بہترین مثال ہیں۔ احمد حسین سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہیں، تاہم وہ اپنے پینشن کی رقم کا ایک بڑا حصہ غریب بچوں کی تعلیم و تربیت میں لگاتے ہیں۔ ان کی پینشن ابھی 50 ہزار روپے ہے، غریب بچوں کی تعلیم اور انکی حوصلہ افزائی کا بھی طریقہ کا ان کا مختلف ہے۔ پینشن کی رقم کا ایک حصہ اپنے اسکول ' ہادی ہاشمی سنیئر سکنڈری پلس ٹو اسکول ' جہاں سے احمد حسین نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی تھی، اس کے طالب علموں کی حوصلہ افزائی اور داخلہ سمیت دیگر چیزوں کے لئے مختص کرتے ہیں۔
گیا: پینشن کی رقم سے غریب بچوں کی تعلیم میں مدد کرنے والے 95 برس کے بزرگ (Etv bharat) اس رقم میں ہادی ہاشمی اسکول کے ان طالب علموں کو بھی انعام دیتے ہیں جو دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحان میں ضلع یا اسکول سطح پر ٹاپ تھری میں آتے ہیں۔ ان طالب علموں میں فرسٹ ڈویژن سے کامیاب طالب علم کو 5000 روپے، سکنڈ کو 4000 اور تھرڈ کو 3000 روپے بطور انعام دیتے ہیں۔احمد حسین کی جانب سے ان طالب علموں کو پندرہ اگست یا پھر 26 جنوری کی تقریب میں رقم دےکر حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اس میں کوئی تفریق نہیں ہے کہ وہ صرف مسلم غریب بچوں کی حوصلہ افزائی کریں گے بلکہ وہ سبھی فرقے کے غریب یتیم بچوں کی تعلیم میں مدد کرتے ہیں۔
گیا: پینشن کی رقم سے غریب بچوں کی تعلیم میں مدد کرنے والے 95 برس کے بزرگ (Etv bharat) اس کے علاوہ انکی طرف سے دیگر اسکولوں میں بھی غریب بچوں کی مدد کی جاتی ہے۔ اسکول میں داخلہ فیس دینا ہو یا پھر کلاس کے مطابق نصاب کی کتابیں وغیرہ ہوں اسکوخرید کر دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ اپنے اس خدمت کی تشہیر نہیں کراتے۔ تاہم آج ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ کی گزارش پر انہوں نے اپنی رہائش گاہ پر خصوصی گفتگو کی۔ جس میں اُنہوں نے اپنے بلند حوصلے اور احساسات کا کھل کر اظہار کیا۔ احمد حسین کا ماننا ہے کہ انکی پینشن میں طالب علموں کا حق شامل ہے۔ کیونکہ انکے بچوں کو بھی کسی مخلص شخص کے ذریعے وظیفہ دیا جاتا تھا تاکہ وہ اعلی تعلیم حاصل کریں۔ آج وہی چیزیں اُنہیں یاد ہیں۔
گیا: پینشن کی رقم سے غریب بچوں کی تعلیم میں مدد کرنے والے 95 برس کے بزرگ (Etv bharat) احمد حسین کہتے ہیں کہ ان کا خرچ بہت کم ہے، انکے بیٹے اور بیٹیاں سبھی خوشحال ہیں اور شادی شدہ زندگی میں مصروف ہیں۔ ان کو ہماری پینشن کی رقم کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ بیٹوں کی طرف سے بھی انہیں ان کی ضروریات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہم پیسے بچا کر کیا کریں گے، جن کا جو حق ہے اس کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
- آزادی کے چار سالوں بعد ملازمت میں ہوئے تھے بحال
احمد حسین ای ٹی وی بھارت کے نمائندہ سے اپنی زندگی کے اتار چڑھاو کے سفر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ زمانہ طالب علمی میں انگریزوں کی غلامی سے ملک کو آزادی ملی، آزادی کے چار سالوں بعد سنہ 1952 میں وہ ریکارڈ روم میں سروے کے کام میں بطور کلرک بحال ہوئے، 25 روپے کی تنخواہ پر ان کی بحالی ہوئی تھی، پھر کھتیان بٹنے کا کام پورا ہونے کے بعد سپر وائزر بنے، پھر انہوں نے اکاونٹنٹ کا امتحان دیا اور پاس کر ٹریزری میں اکاونٹنٹ ہوئے۔ قریب 20 ہزار کی تنخواہ پر سنہ 1990 میں وہ سبکدوش ہوئے۔ ابھی ان کی پینشن 50 ہزار روپے ہے۔
احمد حسین نے کہا کہ اُنہیں یہ جذبہ اپنے بچوں کی پڑھائی کے ایک واقعہ سے پیدا ہوا ہے۔ ان کے آٹھ بیٹے ہیں جبکہ چار بیٹیاں ہیں۔ جن میں بڑا بیٹا چنئی یونیورسیٹی سے پروفیسر سے سبکدوش ہے، ایک بیٹا کناڈا سکریٹریٹ میں ملازمت میں ہے اور اب ان کو وہیں کی شہریت مل گئی ہے۔ جبکہ بقیہ اور بیٹے بھی اچھی ملازمت میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بحال ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ جب ان کے پاس اچھی آمدنی نہیں تھی تو علی گڑھ میں پڑھائی کے دوران انکے بچوں کو کسی مخلص شخص سے وظیفہ ملتا تھا، آج وہ اس کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ جب آپ کی ضروریات سے زیادہ کی آمدنی ہو تو اس سے غریبوں کی مدد کریں، ہم ویسا ہی کرتے ہیں۔ مہینے میں 35 ہزار روپے تک خرچ کردیتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ لوگوں کی مدد کریں۔ مدد کرنے کے لئے تعلیم ایک بہترین ذریعہ ہے۔
گیا: پینشن کی رقم سے غریب بچوں کی تعلیم میں مدد کرنے والے 95 برس کے بزرگ (Etv bharat) احمد حسین نے کہا کہ انہوں نے ہادی ہاشمی اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے سارے بچے بھی وہیں سے پڑھے ہوئے ہیں۔ آپ جب کچھ بن جائیں تو اپنے ابتدائی اسکول کو ہرگز نہیں بھولیں کیونکہ آپ کو سنوارنے کی ابتدا اسی اسکول نے کی ہے۔ ہم یاد رکھے ہوئے ہیں۔ اس لیے ہم پہلے اپنے اسکول ہادی ہاشمی کو یاد کرتے ہیں اور وہاں کے بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے اسکولوں کے بچوں کی مدد کرتے ہیں۔
- پیسے کی اہمیت نہیں، جذبہ ہے اہم
ہادی ہاشمی سینیئر سیکنڈری پلس ٹو اسکول کے پرنسپل ڈاکٹر نفاست کریم کہتے ہیں کہ احمد حسین انتہائی مخلص ہیں۔ پیسہ اہم نہیں کہ وہ بچوں کو پڑھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اہم یہ کہ اتنی عمر ہونے کے باوجود وہ مادر علمی کو یاد رکھے ہوئے ہیں۔ وہ نہ صرف اچھے نمبرات سے پاس ہونے والے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ ان کی جانب سے اکثر غریب بچوں کے داخلہ فیس سے لے کر کتاب اور دیگر اخراجات میں بھی مدد کی جاتی ہے۔ ہادی ہاشمی اسکول آزادی سے قبل 1926 میں قائم ہوا تھا۔ اس کے بعد سے ہزاروں طلباء یہاں سے پڑھ کر اچھے مقام پر فائز ہوئے لیکن ان میں ایسا کوئی نہیں ملا کہ وہ اپنے مادر علمی کو یاد کر یہاں وقت دے کر بچوں کی حوصلہ افزائی کرے۔ ان کا یہ حوصلہ اور جذبہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ 15 برسوں سے وہ خود ذاتی طور پر جان رہے ہیں ان کے اسکول میں آکر احمد حسین بچوں کی مالی مدد اسکالر شپ دے کر کرتے ہیں۔ واضح ہوکہ احمد حسین کی عمر 95 برس ہے، بغیر کسی لڑکھڑاہٹ کے چلتے پھرتے ہیں البتہ ضعیفی کاکچھ اثر ہے تاہم وہ آج بھی بچوں کو تعلیم میں مدد کرنے کا جذبہ جوان رکھے ہوئے ہیں۔