لکھنو : ماحولیاتی تحفظ ہمارا مذہبی فریضہ ہے۔ لہذا ہم سب کو چاہیے کہ اپنے ماحول کا اچھی طرح تحفظ کریں۔ اس شدید گرمی سے نجات ماحولیات کے تحفظ کے ذریعے سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن وحدیث نبوی میں جو واضح احکام و ہدایات ہیں آج ان پر عمل کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مولا نا خالد رشید فرنگی محلی چیئرمین اسلامک سنٹر آف انڈیا لکھنو نے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ لکھنو کے محمد طارق خاں نے دار الافتاء فرنگی محل سے ماحولیات کے تحفظ کے سلسلے میں فتوی طلب کیا۔ یہ فتوئی ذیل میں درج ہے۔ واضح رہے کہ دار الافتاء فرنگی محل سے کچھ عرصہ قبل دہشت گردی کے خلاف ، رحم مادر میں بچیوں کے قتل اور تعلیم نسواں کی اہمیت جیسے موضوعات پر فتاوی دیے جاچکے ہیں۔ اس فتوی پر مولا نا خالد رشید فرنگی محلی ، مولانا نعیم الرحمن صدیقی، مولانامحمد مستقیم اور مولانا محمد نصر اللہ کے دستخط ہیں۔
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام درج ذیل مسئلے کے متعلق : ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا ایمان وایقان ہے کہ اسلام ایک مکمل دین و مستقل تہذیب ہے۔ اسلامی شریعت میں قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی رہ نمائی ہے۔ خواہ وہ امور عبادات ہوں، معاملات ہوں، تعلقات ہوں، اخلاقیات ہوں، معاشیات ہوں، سماجیات ہوں ، سیاسیات ہوں ، عمرانیات ہوں ، طبیعیات اور فلکیات ہوں، غرض کہ انسانی زندگی کے ہر شعبے اور ہر گوشے کے لیے اسلامی شریعت کے روشن احکام، واضح ہدایات اور حیات بخش تعلیمات موجود ہیں۔ اسی ضمن میں عرض ہے کہ دور حاضر میں تحفظ ماحولیات ایک عالم گیر مسئلہ بن چکا ہے۔ فضائی آلودگی ، زمینی آلودگی، صوتی آلودگی ، درختوں کی کٹائی اور پانی کی بربادی سے ہمارے ماحول اور کرہ ارض کو زبردست خطرات درپیش ہیں۔ کہیں موسم تبدیل ہورہے ہیں، کہیں درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، کہیں زیر زمین پانی خشک ہورہا ہے، کہیں نت نئی بیماریاں پائی جارہی ہیں، کہیں مہلک وبائیں پھیل رہی ہیں۔ انسانوں کے ساتھ ساتھ پرندے، درندے، مچھلیاں الغرض ساری مخلوق خداوندی ماحولیاتی تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہے۔ صورت حال نہایت مہیب اور خطر ناک ہے۔ اپنے ملک اور پوری دنیا میں گرمی، سردی اور بارش میں بے تحاشا شدت پیدا ہورہی ہے۔
اس تناظر میں مفتیان شرع متین سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) ماحولیات کے تحفظ و بقا کے لیے اسلامی شریعت میں کیا احکام و ہدایات وارد ہوتی ہیں؟ (۲) اسلامی شریعت کی روشنی میں شجر کاری کی کیا اہمیت و فضیات ہے؟ (۳) دین اسلام میں پانی کی حفاظت اور اس کی قدر کرنے کے سلسلے میں کیا تعلیمات ہیں؟ (۴) درختوں کے کاٹنے اور جلانے کے سلسلہ میں کس طرح کی وعید اور ممانعت ہے؟ براہ کرم جواب با صواب سے نوازیں۔
فتویٰ
خالق کا ئنات رب رحمن و رحیم نے اپنی لاثانی ولا فانی قدرت و حکمت سے اس خوب صورت دنیا کی تخلیق کی۔ اس میں بسنے والی مخلوقات کی زندگی کی بقاء حفاظت کے لیے آب و باد اور خاک و آتش جیسے بنیادی و ضروری عناصر مہیا کیے۔ انسان کو پیدا کر کے اپنی تمام مخلوقات سے اس کو سجدہ کروایا۔ اس کو کرہ ارض پر اپنا خلیفہ و نمایندہ بنا کر بھیجا۔ پوری کا ئنات اس کے لیے مسخر کی۔ اس کو اپنی عظیم الشان نعمتوں سے سرفراز کیا۔ انسان نے بھی اپنے خالق کی اطاعت کی۔ اس کی عطا کردہ صلاحیتوں کا مناسب استعمال کرتے ہوئے اس دنیا کو جایا سنوارا اور آباد کیا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انسان کی طبیعت میں خدا ترسی، خلق خدا پر شفقت ، محبت ، اخوت ، اخلاص، سچائی، ایمان داری، ایثار، صبر تحمل، تواضع ، عفو، درگزر ، رواداری ، فرض شناسی، احسان شناسی اور شکرگزاری جیسی اعلیٰ صفات کا غلبہ رہا، رب کائنات کی دنیا امن و سکون کا گہوارہ بنی رہی ۔ جب طبائع خود غرضی ، مفاد پرستی، حرص، ہوس ، حسد ظلم ، منافقت، منافست ، نا انصافی ، جھوٹ، مکاری، عیاری ، دھوکہ دہی، نین، خیانت، دنیا پرستی اور احسان فراموشی جیسے ذمائم سے مغلوب ہو گئیں تو یہ جہان رنگ و بو مختلف آلودگیوں سے آلودہ ہو گیا۔ قدرتی وسائل ضائع ہونے لگے ، درخت اور جنگل بے دریغ کاٹے جانے لگے، پانی بے تحاشا خرچ ہونے لگا ۔ زیرزمین آبی ذخائر خشک ہونے لگے۔ موسم تبدیل ہونے لگے، درجہ حرارت بڑھنے لگا۔ ان سب عوامل کا اثر ہمارے ماحول پر بہت برا پڑا۔ آلودگی اور کثافت خطرناک حد تک بڑھ گئی ۔ اوزون کی سطح پر شگاف پڑ گیا۔
پورانظام فطرت درہم برہم ہو گیا اور دنیاز بر دست فساد کی زد میں آگئی ۔ قرآن کریم کے الفاظ میں:
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ " . (الروم :۴۱) ترجمہ: بگاڑ پھیل پڑا ہے خشکی وتری میں لوگوں کے کرتوت سے۔ نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ کرنا، قانون فطرت میں بگاڑ پیدا کرنا اور ماحول کو آلودہ کرنا خالق کا ئنات کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ اس کا مرتکب گناہ گار ہوگا۔
خاتم الانبیاء رحمة للعالمين رسول اکرم نے آب و ہوا کو آلودہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ ماحول کو آلودہ کرنے کا ایک سبب کھلی جگہوں پر بول و براز کرنا بھی ہے۔ صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم نے ارشاد فرمایا: لعنت کے دو کاموں سے بچھو یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں ) لوگوں نے دریافت کیا کہ لعنت کے دو کام کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ایک تو عام راستے میں ( جدھر سے عام لوگوں کی آمد ورفت ہو ) بول و براز کرنا۔ دوسرے سایہ دار جگہ میں ( جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کرتے ہوں ) بول و براز کرنا ۔ ( کتاب الطہارة هیچ مسلم ) آب و ہوا کو صاف کرنے اور ماحول کی کثافت ختم کرنے میں درختوں کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بے زبان مخلوق
دنیائے انسانیت کی بہترین پاک بان اور خادم کے خت انسان کے لیے مضر صحت گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور مفید صحت گیس آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ رسول کا ئنات نے اپنے امتیوں کو شجر کاری کی ترغیب دی ہے اور درختوں کو بے ضرورت کاٹنے یا ان کو ضائع کرنے کی ممانعت فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے: جو کوئی درخت لگائے یا کھیتی کرے اور اس میں سے پرندے، انسان یا جانور کھائیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے۔ ( صحیح بخاری و مسلم)
اسلامی شریعت کا واضح حکم ہے کہ جنگ کی حالت میں درختوں، باغوں اور کھیتوں کو نہ تو جلایا جائے اور نہ ان کو نقصان پہنچایا جائے۔ قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۲۰۵ میں ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو کسی علاقے پر غلبہ پانے کے بعد وہاں کے کھیتوں کو تباہ و برباد کرتے ہیں۔ رسول اکرم نے بیر کے درخت کے بارے میں فرمایا کہ اس کو کاٹنے والے اوندھے منھ جہنم میں جائیں گے ۔ ( مجمع الزوائد ) ایک حدیث میں رسول اکرم نے مجاہدین کو خاص طور پر درختوں اور کھیتوں کو بر باد کرنے سے منع فرمایا۔ ( ترندی بروایت حضرت ابوبکر صدیق) اسلام نے صوتی آلودگی کو قابو میں کرنے کا حکم دیا ہے۔
قرآن کریم میں ہے: واغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ (لقمان: ۱۹) ترجمہ: اور اپنی آواز کو پست رکھو۔ اسلامی شریعت میں اونچی آواز سے بولنا اور شور وغوغا کر نا پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اس کے برعکس سکوت اور خاموشی کو پسند کیا گیا ہے۔
رسول اکرم کا ارشاد ہے: مَنْ صَمَتَ نَحا. (ترندی) ترجمہ: جو خاموش رہا نجات پا گیا۔