لکھنؤ: آٹھ مارچ کو دنیا بھر میں عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے، اس موقع پر خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتی، جرائم اور ان کے حقوق کی بازیابی پر بات چیت کی جاتی ہے اس مناسبت سے لکھنؤ کے کھن کھن جی پی جی کالج کی پروفیسر ریشمہ پروین نے ای ٹی وی بھارت سے خاص بات چیت کی۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین کے حقوق کی آواز اردو شعرا نے بڑھ چڑھ کر کے بلند کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چاہے وہ لکھنؤ کے اسرار الحق مجاز ہوں، کیفی اعظمی ہوں، علامہ اقبال ہوں، یا پھر حالی اور سرسید ہوں سبھی نے خواتین کے حقوق کے لیے بہت کچھ لکھا اور کہا ہے۔
انہوں نے مجاز لکھنؤی کے شعر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ
"تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اگر پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
تیرے ماتھے کا ٹیکا مرد کی قسمت کا تارا ہے
اگر تو ساز بیداری اٹھا لیتی تو اچھا تھا"
وہیں کیفی اعظمی کی 'عورت' کے عنوان سے ایک پوری نظم ہے
"اٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
قلب ماحول میں لرزاں شرر جنگ ہیں آج
حوصلے وقت کے اور زیست کے ایک رنگ ہیں آج
آبگینوں میں تپاں ولولہ سنگ ہیں آج
حسن و عشق ہم آواز و ہم آہنگ ہیں آج
جس میں جلتا ہوں اسی آگ میں جلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
تیرے قدموں میں ہے فردوس تمدن کی بہار
تیری نظروں پہ ہے تہذیب و ترقی کا مدار
تیری آغوش ہے گہوارے نفس و کردار
تا بہ کے گرد تیرے وہم و تعین کا حصار
کوند کر مجلس خلوت سے نکلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے
تو کہ بے جان کھلونے سے بہل جاتی ہے
تپتی سانسوں کی حرارت سے پگھل جاتی ہے
پاؤں جس راہ میں رکھتی ہے پھسل جاتی ہے
بن کے سیماب ہر ایک ظرف میں ڈھل جاتی ہے
زیست کے اہنی سانچوں میں بھی ڈھلنا ہے تجھے
اٹھ میری جان میرے ساتھ ہی چلنا ہے تجھے"