حیدرآباد: زیر مطالعہ کتاب 'تذکرۂ اسلافِ بارہ بنکی' فرحان بارہ بنکوی کی پہلی تصنیف ہے۔ جن کا تعلق ضلع بارہ بنکی سے ہے۔ انہوں نے دارالعلوم دیوبند سے فضیلت اور یوپی مدرسہ بورڈ سے منشی، عالم، کامل اور فاضل کی سند حاصل کی ہے۔ آج کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ درس و تدریس کے ساتھ قلمی سلسلہ جاری ہے۔ پانچ سال مسلسل تگ و دو کے بعد جو معلومات فراہم ہو سکیں وہ قلمبند کرکے تذکرہ نگاری کی حق ادا کی۔ مصنف نے اس جد و جہد کا تذکرہ 'سخن ہائے گفتنی' کے صفحات میں تفصیل سے پیش کیا ہے۔
طلب صادق ہو تو خدا کی مدد پہنچ جایا کرتی ہے، مولانا رومی
یہ ایک امر حقیقت ہے کہ کسی بھی قوم کی تاریخ ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ جو عظمتیں اور بلندیاں ہمارے آبا و اجداد، پیش رو اور متقدمین، اکابرین، صالحین نے قوم کی خدمت اور معاشرے کی تشکیل کے لیے محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی، اور جنہوں نے دنیا کو ظلمت سے نکال کر علم وحکمت کی روشنی سے آراستہ کیا، وہ ساری عظمتیں اور ان بزرگانِ قوم کی تمام تر کاوشیں، عصرِ حاضر میں فراموش کر دی گئیں ہیں۔
ان اسلاف کا تذکرہ کرنا شبِ ظلمت میں چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ فرحان بارہ بنکوی صاحب نے یہ جذبہ دکھایا اور فہم و ادراک سے کام لے کر یہ کام نہایت ایمانداری سے سر انجام دیا ہے۔ چونکہ تذکرہ نگاری کا فن کافی حد تک عرق ریزی اور محنت طلب کام ہے، پھر بھی مصنف نے شب و روزی کاوشوں سے اسلاف کے شجرۂ نسب اور خانوادے سے لے کر کارناموں تک کا تذکرہ قارئین کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ تصنیف کی سطر سطر اور ورق ورق میں تاریخ کی چاشنی لبریز ہے۔ اسلوبِ تحریر علمی ہے۔ مصنف کا اسلاف کے تئیں احترام اور وطن عزیز سے لگاؤ کس قدر سنجیدہ ہے، کتاب پڑھنے کے بعد اس کا اندازہ قاری خود لگا سکتا ہے۔
کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ حصۂ اول: صوفیا و اولیا، حصہ دوم: علمائے کرام و قاضی القضاۃ، حصۂ سوم: شعرا و ادبا، حصۂ چہارم: ملی، سماجی اور سیاسی شخصیات اور مصلحین کے احوال و اقوال، حالات و واقعات سے متعلق مختصر تعارف، مصنف نے خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔
حصۂ اول میں پانچویں صدی ہجری سے لے کر پندرہویں صدی ہجری تک کے ان صوفیا و اولیا کا ذکر ملتا ہے جو یا تو ضلع بارہ بنکی کے باشندے تھے یا وہ تلاشِ روزگار، یا پھر مختلف ادوار میں وسط ایشیا اور دیگر ممالک سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہوئے تھے۔ یہ وہ بزرگ تھے جنہوں نے اپنے علمی و عملی، روحانی، ادبی کمالات، کشف و کرامات اور اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرکے دنیا میں مثال قائم کی۔ کئی فن حرب کے ماہر تھے۔ ان بزرگانِ ملت میں صفحہ ۳۴؍ پر تحریر کیا گیا پہلا نام سید سالار ساہو غازی رحمۃ اللہ کا ہے جن کا شجرۂ نسب حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جا ملتا ہے۔ جو پانچویں صدی ہجری میں سلطان محمود غزنوی کے امورِ جنگ کے ماہر سپہ سالار تھے۔ قارئین ان کی قدر و منزلت کا اندازہ کتاب پڑھ کر خود لگا سکتے ہیں۔ دوسری شخصیت خواجہ غیاث الدین فتح پوریؒ کی ہے جو بادشاہِ وقت کے صدر جہانی یعنی مذہبی امور کے اعلی افسر تھے۔
شیخ احمد عبدالحق ردولویؒ جن کا نسب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے اور وہ شیخ وقت تھے۔ شیخ اسماعیل بن صفی ردولویؒ کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ شیخ اسماعیل امام ابو حنیفہ کی نسل سے تھے۔ شیخ حسام الدین فتح پوریؒ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں اور کمال کے صوفی بزرگ تھے۔ حصۂ اول قاری محمد عثمان زید پوریؒ پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ مختلف سلسلوں سے تعلق رکھنے والے متعدد مشائخ کا تذکرہ ملتا ہے۔ جنہوں نے کسبِ فیض حاصل کرکے بلند مقام پایا ہے۔ جن کی خدمات اور کمالات و واقعات کے تذکرہ کو مصنف نے خوبصورتی سے قلمبند کیا کیا ہے۔ کتاب کے حاشیہ میں تمام حوالہ جات درج ہیں۔
مصنف نے کتاب کے حصۂ دوم میں بارو بنکی کے تاریخی اہمیت رکھنے والے علما و قضاۃ سے متعارف کرایا ہے۔ جن میں شیخ شہاب الدین اودھی رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر مولانا ہاشم علی زیدپوریؒ تک لگ بھگ پچپن کے قریب عالموں، قاضی القضاۃ کا مختلف حوالوں سمیت تذکرہ ملتا ہے۔ یہاں میں مولانا محمد الیاس بارہ بنکوی رحمۃ اللہ علیہ کا نام ضرور قلمبند کروں گی، جن کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ: