احمدآباد: سفیان صوفی نے اس موقع پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرے آبا و اجداد ٹونک راجستھان کے رہنے والے ہیں، روزی روٹی کے سلسلے میں میرے والد احمدآباد آئے اور احمدآباد میں اپنا قدم مضبوطی سے جما کر باقی اہل خانہ کو بھی احمدآباد بلا لیا۔
میری پیدائش ٹومک میں ہوئی اور وہیں سے ابتدائی تعلیم بھی میں نے حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے اہل خانہ کے ساتھ احمدآباد آگیا اور احمدآباد میں 12 تک کی تعلیم حاصل کی۔ بعد اذاں ایک امریکن کمپنی میں نقشہ سازی کی ملازمت مل گئی۔ ملازمت کے دوران مجھے عشق ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ محبت تو ہاتھ نہیں آئی مگر شاعری جیسا عظیم دولت مجھے حاصل ہو گیا اور میں نے شاعری پڑھنا شروع کی، آہستہ آہستہ شاعری لکھنے کا شوق بھی پیدا ہو گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سال 2013 میں احمدآباد کے گومتی پور علاقے میں ایک آل انڈیا مشاعرہ ہوا تھا، جس میں میں شرکت کرنے گیا تھا، مشاعرے میں ضیاء ٹونکی نظامت کر رہے تھے اور جب وہ اسٹیج سے نیچے اترے تو میں نے ان سے اپنا وطنی تعارف پیش کیا اور بتایا کہ میں بھی شاعری کرتا ہوں اور اپ کی رہنمائی چاہتا ہوں۔
اس موقع پر انہوں نے بڑی شفقت سے میرے کچھ اشعار سنے پھر مجھے احمدآباد کے شاعر بشر رضوی کا فون نمبر دے دیا اور کہا کہ آپ بشر رضوی صاحب سے ملیں وہ آپ کو نیک مشورہ دیں گے۔ دوسرے دن اسی جگہ جہاں مشاعرہ ہوا تھا میں پھر سے وہاں گیا اور بشر رضوی کا پتہ معلام کیا، ان سے ملاقات کی اس ملاقات کے بعد مجھے کسی دوست کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی اور بشر رضوی صاحب نے مجھے شاعری کے لوازمات اور اصول سکھائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آہستہ آہستہ میں نے شعر و شاعری لکھنا شروع کی، اپنی غزلیں لے کے مسودہ تیار کیا اور گجرات ساہتیہ اکاڈمی میں اپنا مسودہ رکھا۔ میں گجرات ساہتیہ اکاڈمی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے حال ہی میں میرا مجموعہ "پہلا عشق" شائع کرنے کے لیے تعاون کیا۔
ہم لوگ شعر و شاعری کرتے ہیں ہم نے گروپ بھی بنایا ہے 'خود رنگ' جس کا نام ہے اور اس کے ساتھ ہی ہم مختلف پروگرام اور نششتیں کرتے رہتے ہیں تاکہ گجرات میں اردو ادب اور اردو شاعری کا معیار اور بلند ہو۔
سفیان صوفی کے کچھ منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔