سرینگر:سرینگر مضافاتی علاقے گنڈبل میں اس وقت قیامت برپا ہوئی، جب منگل کی صبح 8 بجے کے قریب ایک کشتی دریائے جہلم میں الٹ کر غرق آب ہوگئی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کشتی میں 15 افراد سوار تھے جن میں 6 افراد کو بچا لیا گیا۔ جبکہ 6 کی موقع پر ہی موت واقع ہوگئی۔
غور طلب ہو کہ ہلاک ہوئے افراد میں ایک ہی گھر کے تین افراد شامل ہیں۔ دوسری جانب باپ بیٹا سمیت 3 افراد کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے آپریشن بڑے پیمانے پر اس وقت جاری ہے۔ ایسے میں بتایا جارہا ہے کہ کشتی میں سوار زیادہ تر وہ بچے تھے جو کہ ملحقہ علاقے بٹہ وارہ میں قائم اسکول جانے کے لیے کشتی میں سوار ہوکر معمول کے مطابق دریائے جہلم پار کر رہے تھے۔
اس المناک حادثے میں دیگر اسکولی بچوں کے علاوہ دو جڑوا بھائی بھی غرق آب ہوئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جدید اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی مذکورہ علاقے میں بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے سرکاری یا نجی سطح کا کوئی بھی اسکول موجود نہیں ہے۔
مقامی لوگوں خاص کر والدین کا کہنا ہے گنڈ بل علاقے میں تعلیمی لحاظ سے بنیادی سہولیات کا کافی فقدان پایا ہے۔ جس کے نتیجے میں والدین اپنے بچوں کو بہتر تعلیمی کے لیے دوسرے مقامات یا علاقوں میں قائم تعلیمی اداروں میں داخل کرنے پر مجبور ہیں۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ علاقے میں پل بھی موجود نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق مذکورہ علاقے میں سال 2011 میں ایک گورنمنٹ اسکول قائم کیا گیا ہے۔ تب سے لے کر آج تک اس کا درجہ بڑھایا نہیں گیا۔ سرکاری زمین دستیاب ہونے اور مقامی لوگوں کے بار بار کے مطالبے کے باجود بھی اس پر سرکار نے کوئی بھی توجہ نہیں دی ہے۔ گنڈ بل میں پرائمری اسکول تین کمروں پر مشتمل ہے، جس میں دو ہی کمرے بچوں کو پڑھانے کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں اور ایک کمرہ بچوں کے مڈڈے میل کے لیے کام میں لایا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سرینگر جہلم سانحہ، ذمہ دار کون؟
ایسے میں یہ علاقہ نہ صرف انفراسٹرکچر بلکہ تعلیمی معیار کے لحاظ سے کافی پیچھے ہیں۔ جس کے پیش نظر مقابلے کے اس دور میں والدین اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرانے کے لیے معیاری اسکولوں میں داخل کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ اس طرح کئی والدین نے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم کے حصول کی خاطر دریا پار بٹوارہ، راخباغ اور جواہر نگر وغیرہ علاقوں میں قائم کیندریہ ودیالیہ اور دیگر نجی اسکولوں میں تعلیم دلوانے کے لیے مجبور ہیں۔