سرینگر:جموں کشمیر میں ریاستی درجہ کی بحالی سے قبل اسمبلی انتخابات میں حصہ نہ لینے کے اپنے پہلے موقف سے ہٹتے ہوئے، سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس (این سی) کے نائب صدر عمر عبداللہ نے آج اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا عندیہ دیا ہے۔ حالانکہ وہ پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ یونین ٹیریٹری (جموں و کشمیر) میں انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔
عمر عبداللہ نے جمعہ کو سرینگر میں کہا: ’’میں انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پارٹی کے اندر سے مجھ پر کافی دباؤ ہے کہ میں انتخابات میں حصہ لوں۔ اس لیے میں پارٹی کے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر اس پر تبادلہ خیال کروں گا اور آنے والے دنوں میں حتمی فیصلہ کروں گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا: ’’میرا دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ میرے والد (ڈاکٹر فاروق عبداللہ) عمر پیری میں ہے اور ان کی صحت بھی نازک ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اگر میں انتخابات میں حصہ نہیں لیتا تو وہ (فاروق عبداللہ) مجبوراً انتخابات میں حصہ لیں گے۔ یہ میرے لیے ایک اور چیلنج ہے۔ اس لیے میں اپنے ساتھیوں اور فاروق صاحب سے مشاورت کروں گا اور کسی نتیجے پر پہنچوں گا۔‘‘
دفعہ 370 کے خاتمے اور ریاست کو دو یونین ٹیریٹریز میں تقسیم کرنے کے بعد عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ انہیں دھوکہ دیا گیا ہے اور وہ کبھی اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ عمر عبداللہ نے دسمبر 2020 میں ای ٹی وی بھارت کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے کیونکہ وہ دھوکہ دہی کا شکار محسوس کرتے ہیں۔ ’’میرا اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ میں کبھی اسمبلی انتخابات میں حصہ نہ لوں کیونکہ میں نے دھوکہ دہی محسوس کی ہے۔ میں اسے ریاست کی حیثیت چھیننے یا آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ نہیں جوڑتا بلکہ اس دھوکہ دہی کے ساتھ جو میں نے محسوس کی۔‘‘ عمر نے ان باتوں کا اظہار اپنی سرینگر رہائش گاہ پر دئے گئے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔
حال ہی میں جب بی جے پی حکومت نے تمام انتظامی اختیارات لیفٹیننٹ گورنر کو دے دیے تھے، تو عمر نے ایک قومی روزنامے کو بتایا تھا کہ وہ اسمبلی انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے اور ایک ایسے وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گے جسے ایل جی کے دفتر کے باہر ایک فائل پر دستخط کرنے یا اپنے چپراسی کی تقرری کے لیے بیٹھنا پڑے۔ کانگریس کے ساتھ انتخابات سے قبل ہی اتحاد کے بارے میں عمر نے کہا کہ ’’اتحاد پر بات کرنے کے لیے وقت بہت کم ہے لیکن کانگریس کے ساتھ ’سمجھ بوجھ ہو سکتی ہے۔‘‘ عمر نے کہا: ’’کانگریس کے کچھ سینئر رہنما دہلی سے یہاں آئے تھے اور ان سے انتخابات سے قبل اتحاد کے بارے میں بات چیت ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے وہ اپنی اعلیٰ قیادت کی ہدایات کے بغیر ہی یہاں آئے تھے، اس لیے ہم اس بات چیت کو آگے نہیں بڑھا سکے۔‘‘