الطاف بخاری نے پی ڈی پی سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا (JKAP) سرینگر (جموں کشمیر) :جموں کشمیر کے معروف تاجر اور سیاسی رہنما سید محمد الطاف بخاری نے قانون ساز اسمبلی میں واپسی کو یقینی بنانا کی غرض سے بدھ کے روز روز اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ سرینگر کی اسمبلی نشست چھانہ پورہ سے انتخابات کی تیاری کر رہے بخاری نے جمع کرائے گئے حلف نامے میں تقریبا ایک ارب روپے مالیت کے اثاثوں کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ حلف نامے کے مطابق کل 98 کروڑ روپے کے اثاثوں میں کئی لگژری گاڑیاں بھی شامل ہیں۔
بخاری کے حلف نامے میں ان کے مالی اثاثوں کی جامع تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔ حلف نامے کے مطابق، بخاری کے پاس 51.27 کروڑ روپے کی غیر منقولہ جائیداد ہے، جبکہ ان کی اہلیہ کے پاس 12.46 کروڑ روپے کی غیر منقولہ جائیداد ہے۔ ان کے منقولہ اثاثوں کی مجموعی مالیت 4.30 کروڑ روپے ہے، جبکہ ان کی اہلیہ کے منقولہ اثاثے 97.38 کروڑ روپے ہیں۔ ان میں لگژری گاڑیاں جیسے کہ ٹویوٹا فورچیونر، جس کی قیمت 24.42 لاکھ روپے ہے، اور ٹویوٹا انووا، جس کی قیمت 15.75 لاکھ روپے ہے، شامل ہیں۔ جبکہ ان کے پاس ایک ترمیم شدہ ٹاٹا موبائل 207 بھی ہے جس کی قیمت 4.82 لاکھ روپے ہے۔ بخاری کے پاس ذاتی طور پر 34,000 روپے نقد موجود ہیں، جبکہ ان کی اہلیہ کے پاس 42,000 روپے نقد موجود ہیں۔
الطاف بخاری کو بی جے پی کا قریبی تصور کیا جاتا ہے (JKAP) حلف نامے میں سونے، زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء کے بھی اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔ بخاری کے ذاتی مجموعے میں گھڑیاں اور دیگر قیمتی اشیاء 1.66 لاکھ روپے مالیت کی ہیں، جبکہ ان کی اہلیہ کے زیورات اور دیگر قیمتی اشیاء کی مالیت تقریباً 1.25 کروڑ روپے ہے۔ ان کے کل اثاثوں کی مشترکہ مجموعی مالیت تقریباً 98 کروڑ روپے ہے، جو ان کی سیاسی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی مالی حیثیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
انکم ٹیکس
بخاری کے انکم ٹیکس ریٹرن (ITRs) پچھلے پانچ برسوں میں ان کی مالی حالت کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرتے ہیں۔ انکم ٹیکس ریٹرنز سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی آمدن میں حالیہ برسوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ مالی سال 2019-20 میں بخاری کی اعلان کردہ آمدن 17.14 لاکھ روپے تھی۔ اگلے برسوں میں یہ آمدنی 9.30 لاکھ روپے سے بڑھ کر (2020-21)، 26.15 لاکھ روپے (2021-22)، 18.18 لاکھ روپے (2022-23)، اور 22.44 لاکھ روپے (2023-24) ہو گئی۔
الطاف بخاری پی ڈی پی کابینہ میں وزیر رہ چکے ہے۔ (JKAP) بخاری کا سیاسی سفر اسٹریٹیجک اقدامات اور اہم کرداروں سے مزین ہے۔ ان کا سیاسی عروج 2014 کے اسمبلی انتخابات میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے مینڈیٹ پر امیرا کدل نشست (جو حد بندی کے بعد لال چوک اور چھانہ پورہ میں تقسیم کی گئی) جیتنے کے ساتھ شروع ہوا، جہاں انہوں نے 11,726 ووٹ حاصل کیے اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر ناصر اسلم وانی کو 5,341 ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔
پی ڈی پی کے ساتھ علیحدگی کے بعد الطاف بخاری نے اپنی پارٹی کی بنادی رکھی (JKAP) بخاری نے اپنی سیاسی مدت کے دوران متعدد اور اہم وزارتی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ آر اینڈ بی کے وزیر کے طور پر مقرر ہوئے اور جموں و کشمیر میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی نگرانی کی۔ 2017 میں بخاری کو وزیر تعلیم کے طور پر تعینات کیا گیا، جہاں انہوں نے تعلیمی نظام میں اصلاحات لانے پر توجہ دی۔ جون 2018 میں بی جے پی - پی ڈی پی حکومت کے خاتمے کے بعد بخاری کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے ممکنہ امیدوار سمجھا جاتا تھا، لیکن انہیں یہ موقع نہیں ملا۔ اس دور نے ان کے کیریئر میں ایک اہم موڑ لیا اور انہیں نئی سیاسی حکمت عملیوں پر غور کرنے پر مجبور کیا۔
دفعہ 370کی تنسیخ کے وقت الطاف بخاری کو نظر بند نہیں کیا گیا تھا (JKAP) مارچ 2020 میں، بخاری نے جموں و کشمیر اپنی پارٹی (JKAP) کی بنیاد رکھی، جو ان کی سیاسی زندگی کا نیا مرحلہ تھا۔ یہ اقدام ان کی پی ڈی پی سے بے دخلی کے بعد آیا اور انہیں اپنی سیاسی حکمت عملی کو از سر نو ترتیب دینے کا موقع ملا۔
اپنی پارٹی کے بعض بنیادی اراکین بھی اب الطاف بخاری کو چھوڑ چکے ہیں (JKAP) الطاف بخاری کی قیادت میں جموں و کشمیر اپنی پارٹی (جے کے اے پی) نے مختلف سیاسی رہنماؤں اور گروہوں، بشمول حریت کانفرنس سے وابستہ افراد کے ساتھ بھرپور روابط قائم کیے ہیں۔ حالیہ کوششوں کے دوران مسرور عباس انصاری جیسے سینئر علیحدگی پسند رہنماؤں کو بھی شامل کرنے کی بھی اطلاعات ہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے سے پہلے، بخاری اپنے خاندانی کاروبار ایف آئی ایل انڈسٹریز لمیٹڈ میں سرگرم تھے، جسے ان کے والد سید محمد اقبال بخاری نے قائم کیا تھا۔ یہ کمپنی زراعت، خوراک اور مشروبات، سیاحت، ہوٹلنگ، اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں کام کرتی ہے۔ بخاری کی قیادت میں، ایف آئی ایل انڈسٹریز نے اپنی کارکردگی میں اضافہ کیا اور کشمیر میں کنٹرولڈ ایٹموسفیئر اسٹوریج (CAS) جیسی جدید ٹیکنالوجی متعارف کرائی۔
اپنی پارٹی پر بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم ہونے کے الزامات عائد ہو چکے ہین (JKAP) بخاری کی سیاسی زندگی میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ اسٹریٹیجک طور پر منسلک ہونے کا رجحان رہا ہے، جو جموں و کشمیر کی سیاست میں ایک اہم تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے۔ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ گزارے گئے وقت اور اپنی پارٹی کے قیام کے بعد، بخاری نے بی جے پی کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کیے، جس پر حزب اختلاف کی جماعتوں نے ان کی شدید تنقید کی۔ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے بخاری کی اپنی پارٹی پر غیر قانونی مالی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ’’یہ پارٹی پاکستان سے چلائے جانے والے حوالہ نیٹ ورک کی مدد کرتی ہے، جو کشمیر میں عسکریت پسندی کے لیے فنڈ فراہم کرتا ہے۔‘‘
محبوبہ نے اس سال لوک سبھا انتخابات کے دوران کہا تھا: ’’مجھے حیرانی ہے کہ بی جے پی، جو خود کو قوم پرست کہتی ہے، اس پارٹی (الطاف بخاری کی اپنی پارٹی) کی حمایت کر رہی ہے جو حوالہ فنڈنگ اور خونریزی میں براہ راست ملوث ہے۔‘‘ محبوبہ نے یہ اشارہ دیا کہ بخاری بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کو اس پارٹی کی حمایت کرنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو علیحدگی پسندوں کی مالی مدد اور تشدد سے منسلک تھی۔
دوسری جانب، بخاری نے اپنی سیاسی حکمت عملی کو قوم پرستی کے نام پر پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’بی جے پی مودی کے نام پر ووٹ مانگتی ہے، نیشنل کانفرنس شیخ عبداللہ کے نام پر، کانگریس گاندھی اور نہرو کے نام پر، اور پی ڈی پی مفتی صاحب کے نام پر ووٹ مانگتی ہے۔ الطاف بخاری کی پارٹی واحد ہے جو قوم کے نام پر ووٹ مانگتی ہے۔ میں ہندوستان کے نام پر ووٹ مانگتا ہوں۔‘‘ بخاری کے دعووں کے باوجود، اپنی پارٹی کو بی جے پی کی ’’بی ٹیم‘‘ ہونے کے الزامات کا سامنا رہا، خاص طور پر اس کے بعد جب پارٹی نے بی جے پی سے علیحدگی اختیار کی اور اپنے منشور میں ریاست کی بحالی کا وعدہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں:جموں و کشمیر: سرکاری ملازمین کو الیکشن لڑنے سے روکنے والے قانون کو چیلنج، ہائی کورٹ میں 21 اکتوبر کو سماعت
عمر عبد اللہ ہوئے جذباتی، سر سے ٹوپی اتار کر لوگوں کے سامنے جوڑے ہاتھ - Umar Abdullah Became Emotional