اقوام متحدہ: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جمعہ کے روز فلسطین کو نئے "حقوق اور مراعات" دینے کے لیے ووٹ دیا اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کا 194 واں رکن بنانے کے لیے فلسطین کی درخواست پر نظر ثانی کرے۔
عالمی ادارے نے عرب اور فلسطینیوں کی حمایت میں پیش کی گئی قرارداد کو 143-9 ووٹوں سے منظور کر لیا جبکہ 25 غیر حاضر تھے۔ امریکہ نے اسرائیل، ارجنٹینا، چیکیا، ہنگری، مائیکرونیشیا، ناؤرو، پلاوواور پاپوا نیو گنی کے ساتھ اس کے خلاف ووٹ دیا۔
یہ ووٹ اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کے لیے وسیع عالمی حمایت کی عکاسی کرتا ہے، بہت سے ممالک نے غزہ میں ہلاکتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر غم و غصے کا اظہار کیا اور جنوبی شہر رفح میں ایک بڑے اسرائیلی حملے کا خدشہ ظاہر کیا جہاں تقریباً 1.3 ملین فلسطینی پناہ کی تلاش میں ہیں۔
اس ووٹنگ نے فلسطینیوں کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت کا بھی مظاہرہ کیا۔ 27 اکتوبر کو جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد جس میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا اسے 120-14 ووٹوں سے منظور کیا گیا جس میں 45 کی غیر حاضری رہی۔ یہ صرف چند ہفتوں بعد تھا جب اسرائیل نے حماس کے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حملے کے جواب میں اپنی فوجی کارروائی شروع کی تھی، جس میں 1,200 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
اگرچہ جمعہ کی قرارداد میں فلسطین کو کچھ نئے حقوق اور مراعات ضرور ملے ہیں، لیکن اس سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ فلسطین، اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت اور جنرل اسمبلی یا اس کی کسی بھی کانفرنس میں ووٹ دینے کا حقدار نہیں ہے اور ساتھ ہی ایک غیر رکن مبصر ریاست بھی ہے۔ امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ فلسطین کی رکنیت اور ریاست کو اس وقت تک روکے رہے گا جب تک اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی سیدھی بات چیت نہ ہو۔ سرحدوں پر امن و سلامتی قائم نہ ہو اور یروشلم کے مستقبل سمیت اہم مسائل حل نہ ہوں، اور اسرائیل کے ساتھ دو ریاستی حل کی طرف آگے نہ بڑھے، ہم اس کی رکنیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔
امریکی نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے جمعے کو کہا کہ امریکہ کے لیے فلسطینی ریاست کی حمایت اس بات پر منحصر ہے کہ فلسطین اپنی ریاست میں امن و سکون کو یقینی بنائے۔ یہ بہت ضروری ہے کی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہِ راست بات چیت ہو۔ امریکہ نے 18 اپریل کو وسیع پیمانے پر حمایت یافتہ کونسل کی قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا جس سے فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کی راہ ہموار نہیں ہو پائی۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت، اقوام متحدہ کے ممکنہ اراکین کو "امن پسند" ہونا چاہیے اور سلامتی کونسل کو حتمی منظوری کے لیے جنرل اسمبلی میں ان کے داخلے کی سفارش کرنی چاہیے۔ فلسطین 2012 میں اقوام متحدہ کی غیر رکن مبصر ریاست بن گیا۔
سلامتی کونسل میں قراردادوں کے برعکس، 193 رکنی جنرل اسمبلی میں کوئی ویٹو نہیں کیا گیا ہے۔ جمعہ کی قرارداد کے لیے دو تہائی ارکان کی اکثریت کی ضرورت تھی اور اسے کم از کم 118 ووٹوں سے نمایاں طور پر زیادہ ووٹ ملے۔ امریکی اتحادیوں نے قرارداد کی حمایت کی جن میں فرانس، جاپان، جنوبی کوریا، اسپین، آسٹریلیا، ایسٹونیا اور ناروے شامل ہیں۔ لیکن یورپی ممالک اس مدعے پر متحد نہیں تھے۔
یہ قرارداد "تعین کرتی ہے" کہ فلسطین کی ریاست، رکنیت کے لیے اہل ہے- اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کی مکمل رکنیت کے لیے اب نیا دباؤ آیا ہے اور یہ ایسے وقت میں آیا ہے جب غزہ کی جنگ نے 75 سال سے زیادہ پرانے اسرائیل-فلسطینی تنازعے کو بڑے پیمانے پر مرکز میں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔
کونسل اور اسمبلی کے متعدد اجلاسوں میں، غزہ میں فلسطینیوں کو درپیش انسانی بحران اور غزہ کے محکمہ صحت کے حکام کے مطابق علاقے میں 34,000 سے زائد افراد کی ہلاکت نے کئی ممالک میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
ووٹنگ سے قبل، اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر ریاض منصور نے ایک جذباتی تقریر میں اسمبلی سے کہا کہ "اس طرح کے نقصانات اور صدمے فلسطینیوں، ان کے خاندانوں، برادریوں اور مجموعی طور پر ہماری قوم نے برداشت کئے ہیں ہم ان کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے۔"
انہوں نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں کی زندگی کو دشوار بنا دیا گیا ہے اور اسرائیل نے رفح کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ منصور نے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ "اپنی سیاسی بقا کو یقینی بنانے کے لیے ہزاروں افراد کو قتل کرنے" کی تیاری کر رہے ہیں اور فلسطینی عوام کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔