خان یونس، غزہ کی پٹی: روتے بلبلاتے بچوں کے ساتھ پریشان والدین وسطی غزہ کے ناصر اسپتال میں ڈرمیٹولوجی کے شعبہ میں علاج کے لیے پہنچ رہے ہیں۔
ایک چھوٹا بچہ رو رہا تھا جب اس کی ماں نے دکھایا کہ اس کے چہرے کو ڈھانپنے والے سرخ اور سفید دھبے اس کی گردن اور سینے تک کیسے پھیل گئے ہیں۔ ایک اور عورت نے اپنے چھوٹے لڑکے کے کپڑے اُٹھائے تاکہ اس کی پیٹھ، رانوں اور پیٹ پر کے دھبے دکھائے جا سکیں۔ اس بچے کی کلائیوں پر کھرچنے سے زخم ہو گئے تھے۔ ایک باپ نے اپنی بیٹی کو میز پر کھڑا کیا تاکہ ڈاکٹر اس کے پنڈلیوں کے زخموں کا جائزہ لے سکے۔
صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں جلد کی بیماریاں عروج پر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بھیڑ بھاڑ سے بھرے خیمہ کیمپوں میں خوفناک حالات ہیں جہاں لاکھوں بے گھر فلسطینی موت سے بدتر زندگی گزارنے کے لیے مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ موسم کی ستم ظریفی اور جنگ میں اسرائیلی بمباری کی وجہ سے ہوئی صفائی ستھرائی کے نظام کی تباہی، جس میں علاقہ میں کھلے سیوریج کے تالاب نظر آ رہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق، ڈاکٹر خارش کے 103,000 سے زیادہ کیسز اور جلد پر خارش کے 65,000 کیسز کا مقابلہ کا علاج کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے مطابق، غزہ کی تقریباً 2.3 ملین کی آبادی میں، جنگ شروع ہونے کے بعد سے سانس کے شدید انفیکشن کے 10 لاکھ سے زیادہ کیسز ریکارڈ کیے جا چکے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ اسہال کے نصف ملین سے زیادہ اور یرقان کے 100,000 سے زیادہ کیسز سامنے آئے ہیں۔
بے گھر فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ خیموں میں صفائی ناممکن ہے، بنیادی طور پر لکڑی کے فریموں کو کمبل یا پلاسٹک کی چادروں کے ساتھ لٹکایا جاتا ہے، جو چوڑے حصّوں پر ایک دوسرے کے ساتھ گھسے ہوئے ہوتے ہیں۔
جنوبی شہر خان یونس کے باہر ٹیلوں میں ایک خیمے میں رہنے والی منیرہ النہل نے کہا کہ، "یہاں کوئی شیمپو، کوئی صابن نہیں ہے۔" "پانی گندا ہے۔ ہر جگہ ریت، کیڑے مکوڑے اور کچرا ہے۔"