ریاض: اس سال سعودی عرب بھی شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ مقدس شہر مکہ میں درجہ حرارت 50 ڈگری سیلیس سے بھی تجاوز کرگیا ہے۔ اس شدید گرمی کی وجہ سے امسال دوران حج 1300 سے زائد حاجیوں کی جانیں بھی چلی گئیں۔ ان میں 660 سے زیادہ مصری شہری شامل ہیں۔
سعودی وزیر صحت فہد بن عبدالرحمان کے مطابق سعودی عرب میں حج کی ادائیگی کے دوران 1301 حجاج کی اموات ہوئیں۔ جن میں سے 83 فیصد اموات ان حجاج کی ہوئیں جو اجازت کے بغیر حج میں شامل ہوئے تھے۔ سعودی وزیر صحت نے یہ بھی کہا کہ حج کے دوران مناسب پناہ گاہ نہ ہونے اور آرام کیے بغیر تیز دھوپ میں طویل فاصلے تک پیدل چلنا بھی ایک وجہ رہی ہے۔
سرکاری الاخباریہ ٹی وی کے ساتھ بات کرتے ہوئے وزیر صحت نے کہا کہ 95 حاجیوں کا اسپتالوں میں علاج کیا جا رہا ہے، جن میں سے کچھ کو دارالحکومت ریاض میں علاج کے لیے ہوائی جہاز سے لے جایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اموات کی شناخت کے عمل میں تاخیر ہوئی کیونکہ بہت سے مرنے والے حاجیوں کے پاس کوئی شناختی دستاویزات نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ مرنے والوں کو مکہ میں دفن کیا گیا ہے۔
سعودی وزیر صحت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جاں بحق حجاج میں متعدد معمر اور دائمی بیماریوں میں مبتلا افراد بھی شامل ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) آزادانہ طور پر موت کی وجوہات کی تصدیق نہیں کر سکا، لیکن اردن اور تیونس جیسے کچھ ممالک نے بڑھتی ہوئی گرمی کو اموات کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اے پی کے مطابق، جاں بحق ہونے والوں میں انڈونیشیا کے 165، بھارت کے 98 اور اردن، تیونس، مراکش، الجیریا اور ملائیشیا کے درجنوں حجاج بھی شامل ہیں۔ دو امریکی شہریوں کی بھی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
تاریخی طور پر حج کے موقع پر اموات کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے، کیونکہ 20 لاکھ سے زیادہ لوگ پانچ روزہ حج کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ لیکن اس سال کی تعداد غیر معمولی طور پر زیادہ تھی، جو غیر معمولی حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔