رفح، غزہ کی پٹی: پندرہ مہینوں کی جنگ میں اسرائیلی حملوں میں تقریباً 47 ہزار فلسطینی جاں بحق ہو گئے۔ پورے کے پورے خاندان ختم ہو گئے۔ معصوم بچے، لاچار خواتین اور نہتے مرد اسرائیلی حملوں میں زندگی کی جنگ ہار گئے۔ کئی معصوم بھوک برداشت نہیں کر پائے تو کچھ کو پینے کے لیے صاف پانی بھی نصیب نہیں ہوا۔ انسان تو انسان جانوروں نے بھی غزہ میں ایسے دن دیکھ لیے جو وہ سوکھے جنگل میں بھی نہیں دیکھ پاتے۔
اسرائیلی جارحیت میں بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہوا تو دوسری جانب فلسطینیوں کے آشیانے بھی تباہ ہو گئے۔ اپنے خوابوں کے محل کی تعمیر میں ایک خاندان اپنی پوری جمع پونجی خرچ کر دیتا ہے۔ ایک کاروبار کو کھڑا کرنے میں ایک تاجر اپنی زندگی صرف کردیتا ہے۔ پندرہ مہینوں کی اسرائیلی جارحیت نے فلسطینیوں سے ان کے آشیانے اور کاروبار چھین لیے۔
جنگ بندی سے قبل بے گھر فلسطینی خیمہ کیمپوں میں زندگی گزار رہے تھے تو آج اپنے تباہ شدہ مکانات کے روبرو بھی وہ خیمہ لگا کر ہی زندگی گزار رہے ہیں۔
جنوبی غزہ کے شہر رفح سے تعلق رکھنے والے بہت سے فلسطینی جب اپنے علاقے میں واپس آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کے گھروں اور کاروبار میں اب کچھ بھی نہیں بچا۔
منال سلیم، چھ بچوں کی اکیلی ماں ہیں جو ہیئر ڈریسر کے طور پر کام کرتی تھی۔ وہ ایک دکان کی مالک تھی جو شادی اور رات کے کپڑے کرائے پر دیتی تھی۔ اس کا خاندان دکان کے اوپر بنے مکان میں رہتا تھا۔
منال سلیم نے کہا، ہم نے سوچا کہ ہمیں رہنے کے لیے کوئی جگہ مل جائے گی، لیکن یہاں کی تباہی خوفناک ہے۔ ملبے کے نیچے سے کچھ پھٹے ہوئے کپڑے نکالتی اور روتی رہتی۔
منال سلیم نے روتے ہوئے کہا، یہ میرا گھر ہے۔ میں نے اسے 25 سال میں ایک ایک اینٹ جوڑ جوڑ کر بنایا تھا۔
اسی علاقہ میں مراد مقداد کی تین منزلہ عمارت میں اپنا گھر اور بجلی کے آلات کی دکان تباہ شدہ ملی۔
مراد نے کہا، ہمیں کچھ نہیں ملا، گھر سے نکالنے کے لیے کچھ نہیں ہے، اور اگر آپ کسی چیز کو نکالنے کے قابل ہوتے، تب بھی آپ اسے استعمال نہیں کر پائیں گے۔