اسلام آباد: آٹھ فروری کو پاکستان میں ووٹرز اپنے پسندیدہ امیدواروں اور اس پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے قطار میں کھڑے ہوں گے جس کو وہ اگلے پانچ سال تک ملک چلاتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن جو بھی پارٹی حکومت بنائے گی اسے اپنے پڑوسیوں بشمول بھارت، ایران، افغانستان، چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کچھ بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستان نے حال ہی میں افغانستان اور ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے دہشت گردی کے مسائل میں اضافہ دیکھا ہے۔ پاکستان کا بھارت کے ساتھ طویل عرصے سے جاری سرحدی تنازعہ بھی ہے اور چین کے ساتھ اس کے تعلقات اور امریکہ کے ساتھ متوازی مواصلاتی شرائط بھی ملک کے تحفظات کا اہم حصہ ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ پاکستان کے ہر انتخابی ریلی کیں سرحدی تنازعہ اور کشمیر مسئلہ کے حوالے سے بھارت کا تذکرہ ہمیشہ ہر سیاسی رہنما کی ہر تقریر کا حصہ رہا ہے، جسے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس دفعہ سیاسی جماعتیں انتخابات میں بھارت کا ذکر نہیں کر رہی ہیں۔ ان کی توجہ غربت، مہنگائی، ترقی اور اندورنی سیاسی خلفشار سے متعلق مسائل پر ہے۔
پاکستان کے موجودہ اندورنی حالات میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ملک کی مستقبل کی خارجہ پالیسی اور اہم علاقائی اور عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کئی دہائیوں سے افغانستان میں جنگ کے دوران امریکی امداد حاصل کرنے والا سرفہرست ملک رہا ہے، لیکن اسلام آباد کی اپنی سرزمین اور سرحد کے اس پار دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی وجہ سے واشنگٹن کو اس کی حمایت پر شک ہے۔
عمران خان کے دور حکومت میں پاک امریکہ تعلقات مزید تلخ ہو گئے، کیونکہ انہوں نے امریکہ پر تنقید کی اور اس کے حریف چین و روس کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی۔
بائیڈن انتظامیہ نے پاکستان کے انتخابی مسائل اور عمل کے حوالے سے انتہائی نرم رویہ اختیار کیا ہوا ہے، جبکہ اس کے برعکس بنگلہ دیش کے انتخابات پر سخت موقف اختیار کیا تھا۔ کچھ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان کے تئیں امریکہ کا نرم موقف گہرے سیاسی بحران سے بچنے کے لیے ہے۔ دراصل پاک بھارت دو جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں کے درمیان دہائیوں پر محیط دشمنی اور کشیدگی نے خطے کو غیر یقینی کے دہانے پر کھڑا کر رکھا ہے۔
2019 میں سرحد پار تنازع کے دوران دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی اپنے عروج پر تھی۔ تاہم، بہت سے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ پاکستان میں نواز شریف کی اگلی حکومت بننے اور نریندر مودی کے اگلی مدت تک اقتدار برقرار رکھنے کے ساتھ، دونوں ممالک تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چین پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ وہ اسلام آباد کا سب سے قابل اعتماد اتحادی بن چکا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے اہم منصوبے سی پیک (چین پاکستان اکنامک کوریڈور) کے ذریعے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے چین کئی طریقوں سے پاکستان کی مدد کے لیے آگے آیا ہے۔
اس حقیقت کے باوجود کہ سی پیک کے کچھ منصوبے تعطل کا شکار ہیں یا ان کی رفتار کم ہو گئی ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شریف حکومت ان منصوبوں کو دوبارہ پٹری پر لا سکتی ہے اور بیجنگ کے ساتھ تعاون کو بھی تیز کر سکتی ہے۔ پاکستان میں کسی بھی حکومت کے لیے خارجہ پالیسی کے معاملات انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ موجودہ انتخابی مہم مہنگائی، بیروزگاری، ترقی اور اندرونی سیاسی خلفشار جیسے اہم ملکی مسائل پر زیادہ مرکوز نظر آتی ہے۔