واشنگٹن: اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے پیر کے روز اسرائیلی حکام کی ایک ٹیم کو واشنگٹن بھیجنے پر اتفاق کیا ہے تاکہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے اہلکاروں کے ساتھ ممکنہ رفح آپریشن کے بارے میں بات چیت کریں۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر۔ جیک سلیوان کے مطابق ہر فریق دوسرے پر اپنا نقطہ نظر واضح کرنے کی کوشش کر رہا ہے،"۔
تقریباً ایک ماہ کے بعد بائیڈن اور نتن یاہو نے پیر کو فون پر بات کی۔ اس دوران رفح آپریشن سے متعلق تبادلہ خیال کرنے پر اتفاق ہوا۔ غزہ میں خوراک کے بحران اور جنگ کے دوران اسرائیل کے طرز عمل پر اتحادیوں کے درمیان کڑواہٹ بڑھ گئی ہے۔ سلیوان نے کہا کہ یہ مذاکرات آنے والے دنوں میں ہوں گے اور توقع ہے کہ اس میں فوجی، انٹیلی جنس اور انسانی ہمدردی کے ماہرین شامل ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کو نتن یاہو کے جنوبی شہر رفح میں آپریشن کرنے کے منصوبے پر شک ہے۔ بائیڈن پہلے ہی اسرائیل کو آگاہ کر چکے ہیں کہ شہریوں کو محفوظ مقام پر منتقل کیے بغیر رفح پر فوجی کارروائی تباہ کن انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ رفح میں تقریباً 1.5 ملین بے گھر فلسطینی پناہ گزین ہیں۔
سلیوان نے کہا کہ بائیڈن نے فون پر بات چیت کے دوران ایک بار پھر نتن یاہو پر زور دیا کہ وہ رفح آپریشن نہ کریں۔ آنے والے مذاکرات میں، انہوں نے کہا کہ امریکی حکام "ایک متبادل طریقہ کار وضع کریں گے جو رفح میں حماس کے اہم عناصر کو نشانہ بنائے گا اور مصر-غزہ سرحد کو بغیر کسی بڑے زمینی حملے کے محفوظ بنائے گا۔"
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر نے کہا کہ، " ہمارا موقف ہے کہ حماس کو رفح یا کسی اور جگہ محفوظ پناہ گاہ کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، لیکن رفح میں ایک بڑا زمینی آپریشن ایک غلطی ہو گی۔ اس سے مزید بے گناہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوں گی، پہلے سے ہی سنگین انسانی بحران مزید بڑھ جائے گا، یہ آپریشن غزہ میں انتشار کو مزید گہرا کر دے گا اور اسرائیل کو بین الاقوامی سطح پر مزید تنہا کر دے گا۔"