یروشلم:اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششوں کو بدھ کے روز دھکا لگا ہے۔ اسرائیل نے مبینہ طور پر اپنی مذاکراتی ٹیم کو واپس بلا لیا اور وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو نے حماس پر الزام لگایا کہ وہ فریبی مطالبات پر قائم رہ کر اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔
نتن یاہو کے تبصرے مقامی میڈیا کی رپورٹ کے چند گھنٹے بعد سامنے آئے ہیں۔ میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیلی رہنما نے ایک اسرائیلی وفد کو قاہرہ میں بات چیت جاری نہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ نتن یاہو کے اس حکم کے بعد مذاکرات پر تشویش پیدا ہو گئی ہے۔ تقریباً 130 باقی ماندہ اسیروں کے خاندانوں کی جانب سے نتن یاہو پر تنقید کی جا رہی ہے۔ یرغمالیوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ نتن یاہو کا فیصلہ ان کے پیاروں کے لیے سزاے موت کے مترادف ہے۔
امریکہ، مصر اور قطر کی طرف سے ثالثی کی کوششیں متحارب فریقوں کو ایک ایسے معاہدے کی طرف لانے کے لیے کام کر رہی ہیں جو پانچوے مہینے میں داخل ہو چکی خونی جنگ میں جنگ بندی کو یقینی بنا سکے۔ غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت میں اب تک 28,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ مقامی صحت کے حکام کے مطابق. جنگ نے غزہ کے وسیع حصوں کو تباہ کر دیا ہے، علاقے کی زیادہ تر آبادی کو بے گھر کر دیا ہے اور ایک انسانی تباہی کو جنم دیا ہے۔
نتن یاہو نے ایک بیان میں کہا ہے کہ قاہرہ میں اسرائیل کو حماس کی طرف سے ہمارے قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے کوئی نئی تجویز موصول نہیں ہوئی ہے۔ "حماس کی پوزیشنوں میں تبدیلی سے مذاکرات میں پیش رفت ہو سکے گی۔"
اس دوران حماس نے کہا کہ نتن یاہو اس کے ذمہ دار ہیں۔ حماس کے سینئر عہدیدار اسامہ ہمدان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اسرائیل نے ایک تجویز پیش کی تھی جو اس سے قبل جنگ بندی کے مذاکرات کے دوران طے پانے والے معاہدوں سے ہٹ گئی تھی۔