ETV Bharat / international

غزہ کی تاریخ: سرزمین فلسطین کی خوں چکاں داستان، اسرائیل فلسطین تنازع کی صدیوں پرانی کہانی - ISRAEL PALESTINE CONFLICT

غزہ ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اس پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ آئیے غزہ کی تاریخ کو تفصیل سے جانتے ہیں۔

غزہ اور فلسطین کا ماضی اور حال
غزہ اور فلسطین کا ماضی اور حال (Photo : AP)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 6, 2025, 1:22 PM IST

Updated : Feb 6, 2025, 1:39 PM IST

حیدرآباد: سنہ 1949 سے لے کر اب تک غزہ تقریباً 15 چھوٹی بڑی جنگیں جھیل چکا ہے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطین اور اسرائیل کے بیچ لڑی گئی حالیہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو مزاحمتی تنظیموں کے حملے کے بعد شروع ہوئی اور 24 نومبر 2023 کو عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی ترسیل عمل میں آئی۔ اس کے بعد یہ جنگ دوبارہ شروع ہو گئی۔ بہر حال 15 جنوری 2025 کو اسرائیل اور حماس نے ایک بار پھر جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا جو کہ تاحال جاری ہے۔

امریکہ کی غزہ پر قبضے کی خواہش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے پانچ فروری 2025 کو ملاقات کی۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر امریکی قبضے کی بات کہہ کر سنسنی پھیلا دی۔ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ سے فلسطینی کو کہیں اور منتقل کرنے کے بعد امریکہ پٹی کو اپنے قبضہ لے لے گا اور اسے ترقی دے کر عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرے گا جہاں دوسرے ممالک کے لوگ بھی آکر رہ سکیں گے۔ اسرائیلی نیتن یاہو نے ٹرمپ کے بیان کی حمایت کی۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد غزہ اور اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ایک بار پھر زیر بحث آگیا۔ آئیے اس موقعے پر اسرائیل اور فلسطین تنازع کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔

غزہ اور فلسطین کی قدیم تاریخ پر ایک نظر

غزہ پٹی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ آثار و روایات کے مطابق غزہ کو تقریبا پانچ ہزار سال قبلِ مسیح کنعان قبیلے نے آباد کیا تھا۔ اس کے جنوب مغرب میں مصر اور صحرائے سینا ہے جب کہ شمالی مشرق میں اسرائیل واقع ہے۔ وہیں اس ساحلی پٹی کا مغربی حصہ بحیرہ روم سے ملتا ہے۔

غزہ کی پٹی اپنی طویل تاریخ میں کئی بار اجڑی اور آباد ہوئی، حتیٰ کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کا نام بھی بدلتا رہا۔ اس پٹی کو کبھی ہزانی تو کبھی اورشليم کے نام سے جانا گیا۔ موجودہ وقت میں اسرائیلی اور عرب اسے غازا اور غزہ کے نام سے پکارتے ہیں۔

قدیم تاریخ میں غزہ بنی اسرائیل کا حصہ رہا۔ اس کے بعد یہ آشوریہ کی حکومت کے ماتحت رہا۔ بعد ازاں یہاں پر مرحلہ وار طریقے سے فارس، سکندر اعظم، رومیوں نے حکومت کی۔

جس دور میں حضرت محمدﷺ کی بعثت ہوئی اور مدینہ ہجرت کے بعد اسلامی دور کا آغاز ہوا، اس وقت غزہ رومیوں کے ہی زیر اقتدار تھا۔

پہلے اسلامی خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ کے زمانے میں حضرت عمرو بن العاص کی قیادت میں اسلامی لشکر روم کی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ اس کے بعد اسلامی فوج نے قدس شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اسلامی کیلنڈر کے مطابق پندرہ ہجری میں دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے دور میں پندرہ ہجری میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق بیت القدس فتح ہوا اور اسی کے ساتھ غزہ بھی اسلامی حکومت کے تسلط میں آ گیا۔ اس کے بعد فلسطین کی پوری سرزمین اگلے پانچ سو سال تک اسلامی خلافت کے ماتحت رہی۔ جب اسلامی حکومت کمزور پڑنے لگی تو 1099ء میں فلسطین پر صلیبیوں نے قبضہ کر لیا اور یہ قبضہ تقریباً 80 سال تک برقرار رہا۔

غزہ کی ایک تاریخی تصویر
غزہ کی ایک تاریخی تصویر (File Photo: AP)

1187 میں صلاح الدین ایوبی کے دور میں حطین کی جنگ کے بعد غزہ سمیت پورے فلسطین پر دوبارہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن 1233ء میں صلیبی افواج نے ایک بار پھر القدس شہر پر قبضہ کرلیا، مگر صرف گیارہ سال بعد ہی صالح نجم الدین ایوب نے 1244 میں ایک بار پھر اس خطے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔

1259ء میں عین جالوت کی جنگ بھی غزہ میں ہی لڑی گئی تھی جس میں اسلامی لشکر نے منگولوں کو بری طرح شکست دی۔ 1517 تک فلسطین پر ممالیک کی حکومت رہی اور 1616ء میں عثمانی خلیفہ سلیم الاول نے فلسطین پر اپنی حکمرانی قائم کرلی۔ اس کے بعد بیچ میں 1799ء میں نپولین کے حملے کو درکنار کر دیا جائے تو پہلی عالمی جنگ تک غزہ عثمانیہ سلطنت کے ماتحت ہی رہا۔

اس کے بعد پہلی عالمی جنگ کے دوران سات نومبر 1917ء کو برطانوی فوج نے دوبار کی ناکامی کے بعد بالآخر تیسری بار غزہ پر قبضہ کرلیا اور اسی کے ساتھ پورا فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔

غزہ کی جدید تاریخ

دراصل اسرائیل اور فلسطین تنازع کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی بہت چھوٹی اقلیت تھے جب کہ عرب نسل کے فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ مگر برطانوی تسلط کے دور میں 20ویں صدی میں یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں نے اس فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس وقت فلسطین کی عرب آبادی نے اس کوشش کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ یہ زمین ان کی ہے اور وہ یہاں نسل در نسل آباد ہیں۔

اسرائیل کے قیام کی بنیاد

دو نومبر 1917 کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے برطانوی یہودی کمیونٹی کی ایک اہم شخصیت لیونل والٹر روتھشیلڈ کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے "فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام" اور "اس مقصد کے حصول" میں برطانوی حکومت کی طرف سے سہولت فراہم کرنے کا عہد کیا۔ اس خط کو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی اعلامیہ فلسطین کے موجودہ تنازع کی جڑ بنا اور آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی رسمی شروعات اسی واقعے سے ہوئی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ برطانیہ نے صیہونی تحریک سے ایک ایسے خطے میں یہودی ملک کا وعدہ کر لیا جہاں 90 فیصد سے زیادہ آبادی فلسطینی عربوں کی تھی۔

غزہ کے شہر رفح میں ایک فلسطینی کسان اپنے انگور کے کھیت میں
غزہ کے شہر رفح میں ایک فلسطینی کسان اپنے انگور کے کھیت میں (File Photo: IANS)

برطانوی مینڈیٹ اور آبادیاتی تبدیلیاں

1923 میں ایک برطانوی مینڈیٹ بنایا گیا جو 1948 تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران انگریزوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی کی سہولت فراہم کی۔ بہت سے یہودی یورپ میں نازیوں کے عتاب سے بھاگ رہے تھے، انہیں بھی منصوبہ بند طریقے سے فلسطین کی طرف ہانک دیا گیا۔ فلسطینیوں کو اپنے ملک کی بدلتی ہوئی آبادی اور برطانیہ کی جانب سے ان کی زمین پر ضبط کرنے اور اسے یہودی تارکین وطن کے حوالے کرنے پر شدید تشویش اور ناراضگی تھی۔

1930 کی دہائی کے اہم واقعات

فلسطین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی بالآخر عرب بغاوت (انتفاضہ/انقلاب) کا باعث بنی، جو 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔

اپریل 1936 میں نو تشکیل شدہ عرب نیشنل کمیٹی نے یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

چھ ماہ کی طویل ہڑتال کو انگریزوں نے بے دردی سے کچل دیا۔

فلسطینیوں کے انتفاضہ/انتفادہ کا دوسرا مرحلہ 1937 کے آخر میں شروع ہوا اور اس کی قیادت فلسطینی کسان مزاحمتی تحریک نے کی۔

برطانوی فوج اور استعمار کو نشانہ بنایا۔

1939 میں برطانیہ نے فلسطین میں 30,000 فوجی بھیجے۔

فلسطینی دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی، کرفیو لگایا گیا اور فلسطینیوں کے مکانات مسمار کر دیے گئے۔

ان تین سال کی بغاوت کے دوران 5000 فلسطینی مارے گئے، 15 سے 20 ہزار زخمی ہوئے اور 5600 قید ہوئے۔

جنگ میں نتیجے میں غزہ میں دور دور تک تباہ شدہ عمارتوں کے مناظر
جنگ میں نتیجے میں غزہ میں دور دور تک تباہ شدہ عمارتوں کے مناظر (File Photo: AP)

اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل کا منصوبہ

1947 تک یہودیوں کی آبادی بڑھ کر فلسطین کا 33 فیصد ہو گئی تھی لیکن ان کے پاس صرف چھ فیصد زمین تھی۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی جس میں پورے فلسطین خطے کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا کیونکہ اس منصوبے میں فلسطین کا تقریباً 56 فیصد حصہ یہودی ریاست کے لیے مختص کر دیا گیا تھا جب کہ آبادی فلسطینیوں کی زیادہ تھی۔ اس میں زیادہ تر زرخیز ساحلی علاقے یہودی ریاست کو دے دیے گئے تھے جب کہ اس وقت تک فلسطینی غیر منقسم فلسطین کے 94 فیصد کے مالک تھے اور ان کی آبادی کا 67 فیصد تھی۔

1948 میں فلسطینیوں کی نسلی صفایا

14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی مسلح صیہونی تنظیموں نے یہودی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دینے کے لیے فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیے۔

اپریل 1948 میں یروشلم کے نواح میں واقع گاؤں دیر یاسین میں 100 سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

1947 سے 1949 تک، 500 سے زیادہ فلسطینی دیہات، قصبے اور شہر تباہ کر دیے گئے جنہیں فلسطینی "نکبہ" یا "تباہی/قیامت صغریٰ" کہتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق مغرب کی حمایت یافتہ مسلح یہودی تنظیموں کے حملوں میں 15000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں درجنوں قتل عام شامل ہیں۔

ان حملوں کے نتیجے میں مسلح یہودیوں نے فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔

باقی 22 فیصد فسلطین اب مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ کی پٹی کے درمیان تقسیم ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 750,000 فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔

آج ان کی اولادیں فلسطین اور پڑوسی ممالک لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزینوں کے طور پر مقیم ہیں۔

بالآخر 14 مئی 1948 کو 'اسرائیل' ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔

اگلے دن پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔

یہ لڑائی جنوری 1949 میں اسرائیل اور مصر، لبنان، اردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کے بعد ختم ہوئی۔

دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق پر زور دیا گیا۔

غزہ کے ساحلی راستے سے شمال کی جانب کوچ کر رہے فلسطینی
غزہ کے ساحلی راستے سے شمال کی جانب کوچ کر رہے فلسطینی (File Photo: AP)

نکبہ (فلسطنیوں کی تباہی) کے بعد کیا ہوا؟

اسرائیل کی نو زائدہ ریاست میں 150,000 سے بھی کم فلسطینی رہ گئے اور تقریباً 20 سال تک انہیں فوجی قبضے میں رہنا پڑا۔ اس کے بعد انہیں اسرائیلی شہریت دے دی گئی۔ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور 1950 میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنی انتظامی حکمرانی قائم کر لی۔ 1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) قائم ہوئی اور ایک سال بعد الفتح سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔

سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ

پانچ جون 1967 کو اسرائیل نے عرب افواج کے اتحاد کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی ماندہ تاریخی فلسطین پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے بعد بہت سے فلسطینیوں کو دوسری بار جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا جسے نکسہ کہا گیا جس کا عربی میں مطلب 'دھچکا' ہے۔

یوم کپور جنگ

ایک اور عرب اسرائیل جنگ، جسے مختلف طور پر یوم کِپور جنگ اور اکتوبر جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس وقت لڑی جاتی ہے جب مصر اور شام نے اسرائیل کے زیر قبضہ جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اسی بیچ جاری سرد جنگ کے دوران کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب سوویت یونین نے مصر اور شام کی مدد کی اور امریکہ اسرائیل کی مدد کرتا رہا۔ پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم نے اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک پر تیل کی پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔ یہ کشیدگی امریکہ اور سوویت یونین کے بیچ مذاکرات کے بعد ختم ہوئی۔

اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کے مناظر
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کے مناظر (File Photo: AP)

کیمپ ڈیوڈ معاہدہ

یکم ستمبر 1978 کو اسرائیل اور مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس معاہدے نے اسرائیل اور مصر کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دیگر فریقوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے تصفیے کے لیے بات چیت کرنے کا بھی پابند کیا۔ 26 مارچ 1979، اسرائیل جزیرہ نما سینائی سے دستبردار ہو گیا۔ اس کے تحت مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، جو اسرائیل اور اس کے ایک عرب پڑوسی کے درمیان پہلا معاہدہ تھا۔

حماس کی تشکیل

حماس کا قیام 1987 میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلی فلسطینی انتفاضہ یا بغاوت کے آغاز پر ہوا تھا۔ دو سال بعد، 1989 میں، حماس نے اسرائیلی فوجی اہداف پر اپنا پہلا حملہ کیا، جس میں دو اسرائیلی فوجیوں کا اغوا اور قتل شامل تھا۔ یہ انتفاضہ عوامی تحریک، بڑے پیمانے پر احتجاج، سول نافرمانی، منظم ہڑتالیں، اور باہمی تعاون پر مبنی تھا۔

پہلا فلسطینی انتفاضہ

دسمبر 1987 میں غزہ کی پٹی میں ایک بغاوت شروع ہوئی جس میں چار فلسطینی مارے گئے۔ ایک اسرائیلی ٹرک فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں سے ٹکرا گیا۔ اس کے بعد شروع ہوا احتجاج تیزی سے مغربی کنارے تک پھیل گیا، نوجوان فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے نتیجے میں حماس تحریک کا قیام عمل میں آیا، جسے ابتدا میں اخوان المسلمون کی ایک شاخ قرار دیا گیا، جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کی قائل تھی۔

حالیہ جنگ کے نتیچے میں ہوئی وسیع تباہی کے مناظر
حالیہ جنگ کے نتیچے میں ہوئی وسیع تباہی کے مناظر (File Photo: AP)

پی ایل او بطور واحد نمائندہ

1988 میں عرب لیگ نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B'Tselem کے مطابق انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 1,070 فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 237 بچے بھی شامل تھے، 175,000 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ انتفاضہ نے عالمی برادری کو تنازع کا حل تلاش کرنے کی جانب توجہ دلائی۔

میڈرڈ پیس کانفرنس

میڈرڈ پیس کانفرنس 30 اکتوبر 1991 کو شروع ہوئی جس کی سرپرستی امریکہ اور سوویت یونین نے مشترکہ طور پر کی۔ فریقین کے درمیان ہونے والے پہلے مذاکرات میں اسرائیلی، اردنی، لبنانی، فلسطینی اور شامی نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کثیر جہتی بات چیت میں وسیع تر عرب دنیا شامل رہی۔ دو سال تک مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اوسلو معاہدہ 1993

بہرحال برسوں کے تشدد کے بعد پہلے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنا تھا۔ حماس نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور اسرائیل میں بس بم دھماکوں اور اور فائرنگ کے متعدد واقعات انجام دیے۔ 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کے قیام کے ساتھ انتفاضہ ختم ہو گیا۔ اس کے تحت ایک فلسطینی اتھارٹی کی عبوری حکومت قائم کی گئی جسے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے کچھ حصوں میں بہت محدود خود مختاری دی گئی۔

غزہ - جیریکو معاہدہ

چار مئی 1994 کو اسرائیل اور فلسطینیوں نے غزہ-جیریکو معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے ساتھ ہی اوسلو معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا۔ اس معاہدے میں غزہ اور مغربی کنارے کے شہر جیریکو سے اسرائیلی افواج کے انخلاء اور اسرائیلی انتظامیہ سے نئی تشکیل شدہ فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار کی منتقلی کا بندوبست کیا گیا۔ وہیں اسرائیل نے 1995 میں غزہ کی پٹی کے گرد الیکٹرانک باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کر دی جس سے تقسیم شدہ فلسطینی علاقوں کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا۔

اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کا ملبہ
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کا ملبہ (File Photo: AP)

اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کا قتل

چار نومبر 1995 کو اسرائیل کے پانچویں وزیر اعظم یتزاک رابن کو ایک یہودی انتہا پسند نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس قتل کا مقصد فلسطینیوں کے ساتھ امن عمل کو پٹڑی سے اتارنا تھا۔ رابن تل ابیب میں ایک امن ریلی سے نکل رہے تھے، اس میں 100,000 سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ 20 سالہ یہودی حملہ آور یگل امیر نے مذہبی بنیادوں پر اوسلو معاہدے کی مخالفت کی۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ اس نے یہ قتل مقدس سرزمین فلسطینیوں کے حوالے کرنے سے روکنے کے لیے کیا۔

28 ستمبر 2000 کو دوسری انتفاضہ کا آغاز

دوسری انتفاضہ (فلسطینیوں کی بغاوت) کی شروعات اس وقت ہوئی جب اسرائیل کے لیکوڈ اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے یروشلم کے پرانے شہر اور اس کے ارد گرد ہزاروں سیکورٹی فورسز کے ساتھ مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا۔

اس دوران دو دنوں میں فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں پانچ فلسطینی شہید اور 200 زخمی ہو گئے۔

اس واقعے نے بڑے پیمانے پر مسلح بغاوت کو جنم دیا۔ انتفاضہ کے دوران اسرائیل نے فلسطینی معیشت اور انفراسٹرکچر کو بے مثال نقصان پہنچایا۔

اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور فلسطینی خطے کو علاحدہ کرنے کے لیے دیوار کی تعمیر شروع کر دی

بڑے پیمانے پر یہودی بستیوں کی تعمیر نے فلسطینیوں کے معاش اور سماج کو تباہ کر دیا۔

غزہ کی حالیہ میں تباہی کے مناظرہ
غزہ کی حالیہ میں تباہی کے مناظرہ (File Photo: AP)

بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی بستیاں

ایک طویل عرصے کے دوران لاکھوں یہودی آباد کار فلسطینیوں کی ہڑپ کی گئی زمین پر بنائی گئی کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے لیے مسلسل سڑکیں اور انفراسٹرکچر تعمیر کر کے فلسطینیوں کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ جب اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے تو مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں صرف 110,000 یہودی رہتے تھے۔ آج یہ تعداد 700,000 سے زیادہ ہے جو فلسطینیوں سے چھینی گئی 100,000 ہیکٹر (390 مربع میل) سے زیادہ اراضی پر رہتے ہیں۔

الفتح اور حماس کی تقسیم

پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کا 2004 میں انتقال ہوا اور دوسرا انتفاضہ 2005 میں ختم ہوا۔

غزہ میں اسرائیلی بستیوں کو تباہ کر دیا گیا۔ وہاں سے اسرائیلی فوجی اور 9000 یہودی رہائشی پٹی چھوڑ گئے۔

2006 میں فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالا۔

حماس نے اکثریت حاصل کی تاہم، فتح نے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد حماس اور فتح کے درمیان خانہ جنگی چھڑ گئی جو مہینوں تک جاری رہی۔

اس خانہ جنگی میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے۔

اس لڑائی کے نتیجے میں حماس نے فتح (فلسطینی اتھارٹی کی مرکزی جماعت) کو غزہ کی پٹی سے باہر نکال دیا۔

فتح نے مغربی ساحل کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔

جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ کی پٹی کی زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔

حماس کے بانی شیخ یاسین کا قتل

اسرائیل نے 22 مارچ 2004ء کو ایک میزائل حملے میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو قتل کر دیا۔ اس وقت وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے تھے۔ اس حملے میں ان کے دو محافظ سمیت 10 دیگر لوگ بھی جاں بحق ہوگئے۔

غزہ کی پٹی پر جنگ

2008، 2012، 2014 اور 2021 میں اسرائیل نے غزہ میں چار جنگ چھیڑی اور بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ ان جنگوں میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ ان جنگوں میں ہزاروں گھر، سکول اور دفاتر و عمارتیں تباہ ہو گئیں۔

حماس کے فوجی سربراہ احمد الجعبری کا قتل

اسرائیل نے 14 نومبر 2012 کو حماس کے فوجی سربراہ احمد الجعبری کو قتل کر دیا۔ جس کے بعد غزہ سے راکٹ حملوں اور اسرائیلی فضائی بمباری میں شدت آگئی۔ اس دوران کم از کم 150 فلسطینی اور چھ اسرائیلی مارے گئے۔

ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال

غزہ پر 2008 کے حملے میں بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ ہتھیار جیسے فاسفورس گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔ 2014 میں، 50 دنوں کے دوران اسرائیل نے 2,100 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا، جن میں 1,462 شہری اور تقریباً 500 بچے شامل تھے۔ اسرائیل نے اس جنگ کو آپریشن پروٹیکٹو ایج کا نام دیا۔ اس دوران تقریباً 11,000 فلسطینی زخمی ہوئے اور 20,000 مکانات تباہ ہوئے جب کہ پانچ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔

غزہ کی حالیہ جنگ میں تباہ شدہ عمارتوں کا منظر
غزہ کی حالیہ جنگ میں تباہ شدہ عمارتوں کا منظر (File Photo: AP)

امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دیا

دسمبر 2017 میں امریکہ نے یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا، جس سے فلسطینیوں میں غم و غصہ پھیل گیا۔

سنہ 2018 کا غزہ احتجاج

سنہ 2018 میں غزہ اور اسرائیلی سرحد پر مظاہرے ہوئے، مظاہرین نے پتھراؤ اور پٹرول بم پھینکے۔ اسرائیلی فوجیوں نے کئی ماہ کے دوران 170 سے زائد فلسطینی مظاہرین کو ہلاک کیا۔ نومبر میں اسرائیل نے غزہ میں ایک خفیہ حملہ کیا۔ اس حملے میں کم از کم سات مشتبہ فلسطینی عسکریت پسند اور ایک سینئر اسرائیلی فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد غزہ سے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ داغے گئے۔

مئی 2021 میں مسجد اقصیٰ پر چھاپہ

یروشلم میں کئی ہفتوں کی کشیدگی کے بعد اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا، جو اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ حماس نے اس کے خلاف احتجاجاً ہزاروں راکٹ داغے، جس کے بعد اسرائیل نے سینکڑوں فضائی حملوں سے جواب دیا۔ غزہ میں 2014 کے بعد ہوئی اس بدترین لڑائی میں 200 سے زائد افراد مارے گئے۔ اسرائیل میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے۔

اسرائیل میں سلسلے وار حملے

22 مارچ سے 8 اپریل 2022 کے درمیان فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل میں کیے گئے حملوں میں 14 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ جواب میں اسرائیل نے عسکریت پسندوں اور فلسطینی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ مغربی ساحل پر "بریک دی ویو" فوجی آپریشن کا آغاز کیا، جس نے 2022 کو خاص طور پر مہلک سال بنا دیا۔

سنہ 2022 میں 146 فلسطینی ہلاک

اسرائیلی فوج نے 2022 میں مغربی کنارے میں 146 فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 2005 میں ریکارڈ محفوظ رکھنے کی شروعات کے بعد سے یہ کسی بھی دوسرے سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ اموات ہیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اسی سال فلسطینیوں نے 29 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا۔

غزہ کی حالیہ جنگ

اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں مزاحمتی تنظیموں کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی۔ 15 ماہ تک چلی اس جنگ میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں کم از کم 1,139 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ غزہ کے میڈیا آفس کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق غزہ پر اسرائیل کے حملے میں 61,700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں 15 سال لگیں گے۔

حیدرآباد: سنہ 1949 سے لے کر اب تک غزہ تقریباً 15 چھوٹی بڑی جنگیں جھیل چکا ہے۔ غزہ کی پٹی میں فلسطین اور اسرائیل کے بیچ لڑی گئی حالیہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو مزاحمتی تنظیموں کے حملے کے بعد شروع ہوئی اور 24 نومبر 2023 کو عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا، جس کے تحت کچھ یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی ترسیل عمل میں آئی۔ اس کے بعد یہ جنگ دوبارہ شروع ہو گئی۔ بہر حال 15 جنوری 2025 کو اسرائیل اور حماس نے ایک بار پھر جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے پر اتفاق کیا جو کہ تاحال جاری ہے۔

امریکہ کی غزہ پر قبضے کی خواہش

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے پانچ فروری 2025 کو ملاقات کی۔ اس کے بعد دونوں رہنماؤں کی مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے غزہ کی پٹی پر امریکی قبضے کی بات کہہ کر سنسنی پھیلا دی۔ ٹرمپ نے کہا کہ غزہ سے فلسطینی کو کہیں اور منتقل کرنے کے بعد امریکہ پٹی کو اپنے قبضہ لے لے گا اور اسے ترقی دے کر عالمی سیاحتی مقام میں تبدیل کرے گا جہاں دوسرے ممالک کے لوگ بھی آکر رہ سکیں گے۔ اسرائیلی نیتن یاہو نے ٹرمپ کے بیان کی حمایت کی۔ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد غزہ اور اسرائیل اور فلسطین کا تنازع ایک بار پھر زیر بحث آگیا۔ آئیے اس موقعے پر اسرائیل اور فلسطین تنازع کے بارے میں تفصیل سے جانتے ہیں۔

غزہ اور فلسطین کی قدیم تاریخ پر ایک نظر

غزہ پٹی کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ آثار و روایات کے مطابق غزہ کو تقریبا پانچ ہزار سال قبلِ مسیح کنعان قبیلے نے آباد کیا تھا۔ اس کے جنوب مغرب میں مصر اور صحرائے سینا ہے جب کہ شمالی مشرق میں اسرائیل واقع ہے۔ وہیں اس ساحلی پٹی کا مغربی حصہ بحیرہ روم سے ملتا ہے۔

غزہ کی پٹی اپنی طویل تاریخ میں کئی بار اجڑی اور آباد ہوئی، حتیٰ کہ تاریخ کے مختلف ادوار میں اس کا نام بھی بدلتا رہا۔ اس پٹی کو کبھی ہزانی تو کبھی اورشليم کے نام سے جانا گیا۔ موجودہ وقت میں اسرائیلی اور عرب اسے غازا اور غزہ کے نام سے پکارتے ہیں۔

قدیم تاریخ میں غزہ بنی اسرائیل کا حصہ رہا۔ اس کے بعد یہ آشوریہ کی حکومت کے ماتحت رہا۔ بعد ازاں یہاں پر مرحلہ وار طریقے سے فارس، سکندر اعظم، رومیوں نے حکومت کی۔

جس دور میں حضرت محمدﷺ کی بعثت ہوئی اور مدینہ ہجرت کے بعد اسلامی دور کا آغاز ہوا، اس وقت غزہ رومیوں کے ہی زیر اقتدار تھا۔

پہلے اسلامی خلیفہ حضرت ابوبکر رضی اللہ کے زمانے میں حضرت عمرو بن العاص کی قیادت میں اسلامی لشکر روم کی فوج کو شکست سے دوچار کیا۔ اس کے بعد اسلامی فوج نے قدس شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اسلامی کیلنڈر کے مطابق پندرہ ہجری میں دوسرے خلیفہ حضرت عمر کے دور میں پندرہ ہجری میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق بیت القدس فتح ہوا اور اسی کے ساتھ غزہ بھی اسلامی حکومت کے تسلط میں آ گیا۔ اس کے بعد فلسطین کی پوری سرزمین اگلے پانچ سو سال تک اسلامی خلافت کے ماتحت رہی۔ جب اسلامی حکومت کمزور پڑنے لگی تو 1099ء میں فلسطین پر صلیبیوں نے قبضہ کر لیا اور یہ قبضہ تقریباً 80 سال تک برقرار رہا۔

غزہ کی ایک تاریخی تصویر
غزہ کی ایک تاریخی تصویر (File Photo: AP)

1187 میں صلاح الدین ایوبی کے دور میں حطین کی جنگ کے بعد غزہ سمیت پورے فلسطین پر دوبارہ مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن 1233ء میں صلیبی افواج نے ایک بار پھر القدس شہر پر قبضہ کرلیا، مگر صرف گیارہ سال بعد ہی صالح نجم الدین ایوب نے 1244 میں ایک بار پھر اس خطے پر کنٹرول حاصل کر لیا۔

1259ء میں عین جالوت کی جنگ بھی غزہ میں ہی لڑی گئی تھی جس میں اسلامی لشکر نے منگولوں کو بری طرح شکست دی۔ 1517 تک فلسطین پر ممالیک کی حکومت رہی اور 1616ء میں عثمانی خلیفہ سلیم الاول نے فلسطین پر اپنی حکمرانی قائم کرلی۔ اس کے بعد بیچ میں 1799ء میں نپولین کے حملے کو درکنار کر دیا جائے تو پہلی عالمی جنگ تک غزہ عثمانیہ سلطنت کے ماتحت ہی رہا۔

اس کے بعد پہلی عالمی جنگ کے دوران سات نومبر 1917ء کو برطانوی فوج نے دوبار کی ناکامی کے بعد بالآخر تیسری بار غزہ پر قبضہ کرلیا اور اسی کے ساتھ پورا فلسطین برطانیہ کے قبضے میں آگیا۔

غزہ کی جدید تاریخ

دراصل اسرائیل اور فلسطین تنازع کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد جب برطانیہ نے فلسطین پر قبضہ کیا تو اس وقت یہاں یہودی بہت چھوٹی اقلیت تھے جب کہ عرب نسل کے فلسطینیوں کی آبادی 90 فیصد سے زیادہ تھی۔ مگر برطانوی تسلط کے دور میں 20ویں صدی میں یورپ میں ظلم و ستم سے بھاگنے والے یہودیوں نے اس فلسطین پر ایک یہودی ریاست قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس وقت فلسطین کی عرب آبادی نے اس کوشش کے خلاف احتجاج کیا اور کہا کہ یہ زمین ان کی ہے اور وہ یہاں نسل در نسل آباد ہیں۔

اسرائیل کے قیام کی بنیاد

دو نومبر 1917 کو اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے برطانوی یہودی کمیونٹی کی ایک اہم شخصیت لیونل والٹر روتھشیلڈ کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے "فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام" اور "اس مقصد کے حصول" میں برطانوی حکومت کی طرف سے سہولت فراہم کرنے کا عہد کیا۔ اس خط کو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہی اعلامیہ فلسطین کے موجودہ تنازع کی جڑ بنا اور آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی رسمی شروعات اسی واقعے سے ہوئی۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ برطانیہ نے صیہونی تحریک سے ایک ایسے خطے میں یہودی ملک کا وعدہ کر لیا جہاں 90 فیصد سے زیادہ آبادی فلسطینی عربوں کی تھی۔

غزہ کے شہر رفح میں ایک فلسطینی کسان اپنے انگور کے کھیت میں
غزہ کے شہر رفح میں ایک فلسطینی کسان اپنے انگور کے کھیت میں (File Photo: IANS)

برطانوی مینڈیٹ اور آبادیاتی تبدیلیاں

1923 میں ایک برطانوی مینڈیٹ بنایا گیا جو 1948 تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران انگریزوں نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی کی سہولت فراہم کی۔ بہت سے یہودی یورپ میں نازیوں کے عتاب سے بھاگ رہے تھے، انہیں بھی منصوبہ بند طریقے سے فلسطین کی طرف ہانک دیا گیا۔ فلسطینیوں کو اپنے ملک کی بدلتی ہوئی آبادی اور برطانیہ کی جانب سے ان کی زمین پر ضبط کرنے اور اسے یہودی تارکین وطن کے حوالے کرنے پر شدید تشویش اور ناراضگی تھی۔

1930 کی دہائی کے اہم واقعات

فلسطین میں بڑھتی ہوئی کشیدگی بالآخر عرب بغاوت (انتفاضہ/انقلاب) کا باعث بنی، جو 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔

اپریل 1936 میں نو تشکیل شدہ عرب نیشنل کمیٹی نے یہودی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔

چھ ماہ کی طویل ہڑتال کو انگریزوں نے بے دردی سے کچل دیا۔

فلسطینیوں کے انتفاضہ/انتفادہ کا دوسرا مرحلہ 1937 کے آخر میں شروع ہوا اور اس کی قیادت فلسطینی کسان مزاحمتی تحریک نے کی۔

برطانوی فوج اور استعمار کو نشانہ بنایا۔

1939 میں برطانیہ نے فلسطین میں 30,000 فوجی بھیجے۔

فلسطینی دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی، کرفیو لگایا گیا اور فلسطینیوں کے مکانات مسمار کر دیے گئے۔

ان تین سال کی بغاوت کے دوران 5000 فلسطینی مارے گئے، 15 سے 20 ہزار زخمی ہوئے اور 5600 قید ہوئے۔

جنگ میں نتیجے میں غزہ میں دور دور تک تباہ شدہ عمارتوں کے مناظر
جنگ میں نتیجے میں غزہ میں دور دور تک تباہ شدہ عمارتوں کے مناظر (File Photo: AP)

اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل کا منصوبہ

1947 تک یہودیوں کی آبادی بڑھ کر فلسطین کا 33 فیصد ہو گئی تھی لیکن ان کے پاس صرف چھ فیصد زمین تھی۔ اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی جس میں پورے فلسطین خطے کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کر دیا کیونکہ اس منصوبے میں فلسطین کا تقریباً 56 فیصد حصہ یہودی ریاست کے لیے مختص کر دیا گیا تھا جب کہ آبادی فلسطینیوں کی زیادہ تھی۔ اس میں زیادہ تر زرخیز ساحلی علاقے یہودی ریاست کو دے دیے گئے تھے جب کہ اس وقت تک فلسطینی غیر منقسم فلسطین کے 94 فیصد کے مالک تھے اور ان کی آبادی کا 67 فیصد تھی۔

1948 میں فلسطینیوں کی نسلی صفایا

14 مئی 1948 کو برطانوی مینڈیٹ کی میعاد ختم ہونے سے قبل ہی مسلح صیہونی تنظیموں نے یہودی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دینے کے لیے فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر حملے شروع کر دیے۔

اپریل 1948 میں یروشلم کے نواح میں واقع گاؤں دیر یاسین میں 100 سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچوں کو ہلاک کر دیا گیا۔

1947 سے 1949 تک، 500 سے زیادہ فلسطینی دیہات، قصبے اور شہر تباہ کر دیے گئے جنہیں فلسطینی "نکبہ" یا "تباہی/قیامت صغریٰ" کہتے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق مغرب کی حمایت یافتہ مسلح یہودی تنظیموں کے حملوں میں 15000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں درجنوں قتل عام شامل ہیں۔

ان حملوں کے نتیجے میں مسلح یہودیوں نے فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔

باقی 22 فیصد فسلطین اب مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ کی پٹی کے درمیان تقسیم ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 750,000 فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا گیا۔

آج ان کی اولادیں فلسطین اور پڑوسی ممالک لبنان، شام، اردن اور مصر میں پناہ گزینوں کے طور پر مقیم ہیں۔

بالآخر 14 مئی 1948 کو 'اسرائیل' ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔

اگلے دن پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہو گئی۔

یہ لڑائی جنوری 1949 میں اسرائیل اور مصر، لبنان، اردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کے بعد ختم ہوئی۔

دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق پر زور دیا گیا۔

غزہ کے ساحلی راستے سے شمال کی جانب کوچ کر رہے فلسطینی
غزہ کے ساحلی راستے سے شمال کی جانب کوچ کر رہے فلسطینی (File Photo: AP)

نکبہ (فلسطنیوں کی تباہی) کے بعد کیا ہوا؟

اسرائیل کی نو زائدہ ریاست میں 150,000 سے بھی کم فلسطینی رہ گئے اور تقریباً 20 سال تک انہیں فوجی قبضے میں رہنا پڑا۔ اس کے بعد انہیں اسرائیلی شہریت دے دی گئی۔ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا اور 1950 میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنی انتظامی حکمرانی قائم کر لی۔ 1964 میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) قائم ہوئی اور ایک سال بعد الفتح سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی گئی۔

سنہ 1967 کی چھ روزہ جنگ

پانچ جون 1967 کو اسرائیل نے عرب افواج کے اتحاد کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصری جزیرہ نما سینائی سمیت باقی ماندہ تاریخی فلسطین پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ اس قبضے کے بعد بہت سے فلسطینیوں کو دوسری بار جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا جسے نکسہ کہا گیا جس کا عربی میں مطلب 'دھچکا' ہے۔

یوم کپور جنگ

ایک اور عرب اسرائیل جنگ، جسے مختلف طور پر یوم کِپور جنگ اور اکتوبر جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اس وقت لڑی جاتی ہے جب مصر اور شام نے اسرائیل کے زیر قبضہ جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ اسی بیچ جاری سرد جنگ کے دوران کشیدگی اس وقت بڑھ گئی جب سوویت یونین نے مصر اور شام کی مدد کی اور امریکہ اسرائیل کی مدد کرتا رہا۔ پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم نے اسرائیل کی حمایت کرنے والے ممالک پر تیل کی پابندیاں عائد کرنا شروع کر دیں۔ یہ کشیدگی امریکہ اور سوویت یونین کے بیچ مذاکرات کے بعد ختم ہوئی۔

اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کے مناظر
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کے مناظر (File Photo: AP)

کیمپ ڈیوڈ معاہدہ

یکم ستمبر 1978 کو اسرائیل اور مصر نے کیمپ ڈیوڈ معاہدے پر دستخط کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس معاہدے نے اسرائیل اور مصر کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ دیگر فریقوں کو مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے تصفیے کے لیے بات چیت کرنے کا بھی پابند کیا۔ 26 مارچ 1979، اسرائیل جزیرہ نما سینائی سے دستبردار ہو گیا۔ اس کے تحت مصر اور اسرائیل نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، جو اسرائیل اور اس کے ایک عرب پڑوسی کے درمیان پہلا معاہدہ تھا۔

حماس کی تشکیل

حماس کا قیام 1987 میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیلی قبضے کے خلاف پہلی فلسطینی انتفاضہ یا بغاوت کے آغاز پر ہوا تھا۔ دو سال بعد، 1989 میں، حماس نے اسرائیلی فوجی اہداف پر اپنا پہلا حملہ کیا، جس میں دو اسرائیلی فوجیوں کا اغوا اور قتل شامل تھا۔ یہ انتفاضہ عوامی تحریک، بڑے پیمانے پر احتجاج، سول نافرمانی، منظم ہڑتالیں، اور باہمی تعاون پر مبنی تھا۔

پہلا فلسطینی انتفاضہ

دسمبر 1987 میں غزہ کی پٹی میں ایک بغاوت شروع ہوئی جس میں چار فلسطینی مارے گئے۔ ایک اسرائیلی ٹرک فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں سے ٹکرا گیا۔ اس کے بعد شروع ہوا احتجاج تیزی سے مغربی کنارے تک پھیل گیا، نوجوان فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔ اس کے نتیجے میں حماس تحریک کا قیام عمل میں آیا، جسے ابتدا میں اخوان المسلمون کی ایک شاخ قرار دیا گیا، جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت کی قائل تھی۔

حالیہ جنگ کے نتیچے میں ہوئی وسیع تباہی کے مناظر
حالیہ جنگ کے نتیچے میں ہوئی وسیع تباہی کے مناظر (File Photo: AP)

پی ایل او بطور واحد نمائندہ

1988 میں عرب لیگ نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا۔ اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم B'Tselem کے مطابق انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج کے ہاتھوں 1,070 فلسطینیوں کو ہلاک کیا گیا جن میں 237 بچے بھی شامل تھے، 175,000 سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔ انتفاضہ نے عالمی برادری کو تنازع کا حل تلاش کرنے کی جانب توجہ دلائی۔

میڈرڈ پیس کانفرنس

میڈرڈ پیس کانفرنس 30 اکتوبر 1991 کو شروع ہوئی جس کی سرپرستی امریکہ اور سوویت یونین نے مشترکہ طور پر کی۔ فریقین کے درمیان ہونے والے پہلے مذاکرات میں اسرائیلی، اردنی، لبنانی، فلسطینی اور شامی نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کثیر جہتی بات چیت میں وسیع تر عرب دنیا شامل رہی۔ دو سال تک مذاکرات ہوتے رہے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

اوسلو معاہدہ 1993

بہرحال برسوں کے تشدد کے بعد پہلے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے گئے، جس کا مقصد اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن قائم کرنا تھا۔ حماس نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور اسرائیل میں بس بم دھماکوں اور اور فائرنگ کے متعدد واقعات انجام دیے۔ 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط اور فلسطینی اتھارٹی (PA) کے قیام کے ساتھ انتفاضہ ختم ہو گیا۔ اس کے تحت ایک فلسطینی اتھارٹی کی عبوری حکومت قائم کی گئی جسے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے کچھ حصوں میں بہت محدود خود مختاری دی گئی۔

غزہ - جیریکو معاہدہ

چار مئی 1994 کو اسرائیل اور فلسطینیوں نے غزہ-جیریکو معاہدے پر دستخط کیے۔ اس کے ساتھ ہی اوسلو معاہدے پر عمل درآمد شروع ہوا۔ اس معاہدے میں غزہ اور مغربی کنارے کے شہر جیریکو سے اسرائیلی افواج کے انخلاء اور اسرائیلی انتظامیہ سے نئی تشکیل شدہ فلسطینی اتھارٹی کو اقتدار کی منتقلی کا بندوبست کیا گیا۔ وہیں اسرائیل نے 1995 میں غزہ کی پٹی کے گرد الیکٹرانک باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کر دی جس سے تقسیم شدہ فلسطینی علاقوں کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا۔

اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کا ملبہ
اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں تباہ شدہ عماتوں کا ملبہ (File Photo: AP)

اسرائیلی وزیر اعظم یتزاک رابن کا قتل

چار نومبر 1995 کو اسرائیل کے پانچویں وزیر اعظم یتزاک رابن کو ایک یہودی انتہا پسند نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اس قتل کا مقصد فلسطینیوں کے ساتھ امن عمل کو پٹڑی سے اتارنا تھا۔ رابن تل ابیب میں ایک امن ریلی سے نکل رہے تھے، اس میں 100,000 سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ 20 سالہ یہودی حملہ آور یگل امیر نے مذہبی بنیادوں پر اوسلو معاہدے کی مخالفت کی۔ اس نے پولیس کو بتایا کہ اس نے یہ قتل مقدس سرزمین فلسطینیوں کے حوالے کرنے سے روکنے کے لیے کیا۔

28 ستمبر 2000 کو دوسری انتفاضہ کا آغاز

دوسری انتفاضہ (فلسطینیوں کی بغاوت) کی شروعات اس وقت ہوئی جب اسرائیل کے لیکوڈ اپوزیشن لیڈر ایریل شیرون نے یروشلم کے پرانے شہر اور اس کے ارد گرد ہزاروں سیکورٹی فورسز کے ساتھ مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا۔

اس دوران دو دنوں میں فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں پانچ فلسطینی شہید اور 200 زخمی ہو گئے۔

اس واقعے نے بڑے پیمانے پر مسلح بغاوت کو جنم دیا۔ انتفاضہ کے دوران اسرائیل نے فلسطینی معیشت اور انفراسٹرکچر کو بے مثال نقصان پہنچایا۔

اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور فلسطینی خطے کو علاحدہ کرنے کے لیے دیوار کی تعمیر شروع کر دی

بڑے پیمانے پر یہودی بستیوں کی تعمیر نے فلسطینیوں کے معاش اور سماج کو تباہ کر دیا۔

غزہ کی حالیہ میں تباہی کے مناظرہ
غزہ کی حالیہ میں تباہی کے مناظرہ (File Photo: AP)

بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی بستیاں

ایک طویل عرصے کے دوران لاکھوں یہودی آباد کار فلسطینیوں کی ہڑپ کی گئی زمین پر بنائی گئی کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے جگہ سکڑتی جا رہی ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے لیے مسلسل سڑکیں اور انفراسٹرکچر تعمیر کر کے فلسطینیوں کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ جب اوسلو معاہدے پر دستخط ہوئے تو مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں صرف 110,000 یہودی رہتے تھے۔ آج یہ تعداد 700,000 سے زیادہ ہے جو فلسطینیوں سے چھینی گئی 100,000 ہیکٹر (390 مربع میل) سے زیادہ اراضی پر رہتے ہیں۔

الفتح اور حماس کی تقسیم

پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات کا 2004 میں انتقال ہوا اور دوسرا انتفاضہ 2005 میں ختم ہوا۔

غزہ میں اسرائیلی بستیوں کو تباہ کر دیا گیا۔ وہاں سے اسرائیلی فوجی اور 9000 یہودی رہائشی پٹی چھوڑ گئے۔

2006 میں فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالا۔

حماس نے اکثریت حاصل کی تاہم، فتح نے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

اس کے بعد حماس اور فتح کے درمیان خانہ جنگی چھڑ گئی جو مہینوں تک جاری رہی۔

اس خانہ جنگی میں سینکڑوں فلسطینی شہید ہوئے۔

اس لڑائی کے نتیجے میں حماس نے فتح (فلسطینی اتھارٹی کی مرکزی جماعت) کو غزہ کی پٹی سے باہر نکال دیا۔

فتح نے مغربی ساحل کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔

جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ کی پٹی کی زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔

حماس کے بانی شیخ یاسین کا قتل

اسرائیل نے 22 مارچ 2004ء کو ایک میزائل حملے میں حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کو قتل کر دیا۔ اس وقت وہ فجر کی نماز پڑھنے کے لیے جا رہے تھے۔ اس حملے میں ان کے دو محافظ سمیت 10 دیگر لوگ بھی جاں بحق ہوگئے۔

غزہ کی پٹی پر جنگ

2008، 2012، 2014 اور 2021 میں اسرائیل نے غزہ میں چار جنگ چھیڑی اور بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ ان جنگوں میں ہزاروں فلسطینی مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ ان جنگوں میں ہزاروں گھر، سکول اور دفاتر و عمارتیں تباہ ہو گئیں۔

حماس کے فوجی سربراہ احمد الجعبری کا قتل

اسرائیل نے 14 نومبر 2012 کو حماس کے فوجی سربراہ احمد الجعبری کو قتل کر دیا۔ جس کے بعد غزہ سے راکٹ حملوں اور اسرائیلی فضائی بمباری میں شدت آگئی۔ اس دوران کم از کم 150 فلسطینی اور چھ اسرائیلی مارے گئے۔

ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال

غزہ پر 2008 کے حملے میں بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ ہتھیار جیسے فاسفورس گیس کا استعمال کیا گیا تھا۔ 2014 میں، 50 دنوں کے دوران اسرائیل نے 2,100 سے زیادہ فلسطینیوں کو قتل کیا، جن میں 1,462 شہری اور تقریباً 500 بچے شامل تھے۔ اسرائیل نے اس جنگ کو آپریشن پروٹیکٹو ایج کا نام دیا۔ اس دوران تقریباً 11,000 فلسطینی زخمی ہوئے اور 20,000 مکانات تباہ ہوئے جب کہ پانچ لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔

غزہ کی حالیہ جنگ میں تباہ شدہ عمارتوں کا منظر
غزہ کی حالیہ جنگ میں تباہ شدہ عمارتوں کا منظر (File Photo: AP)

امریکہ نے یروشلم کو اسرائیل کی راجدھانی قرار دیا

دسمبر 2017 میں امریکہ نے یروشلم کو دارالحکومت تسلیم کیا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا، جس سے فلسطینیوں میں غم و غصہ پھیل گیا۔

سنہ 2018 کا غزہ احتجاج

سنہ 2018 میں غزہ اور اسرائیلی سرحد پر مظاہرے ہوئے، مظاہرین نے پتھراؤ اور پٹرول بم پھینکے۔ اسرائیلی فوجیوں نے کئی ماہ کے دوران 170 سے زائد فلسطینی مظاہرین کو ہلاک کیا۔ نومبر میں اسرائیل نے غزہ میں ایک خفیہ حملہ کیا۔ اس حملے میں کم از کم سات مشتبہ فلسطینی عسکریت پسند اور ایک سینئر اسرائیلی فوجی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ اس کے بعد غزہ سے اسرائیل پر سینکڑوں راکٹ داغے گئے۔

مئی 2021 میں مسجد اقصیٰ پر چھاپہ

یروشلم میں کئی ہفتوں کی کشیدگی کے بعد اسرائیلی پولیس نے مسجد اقصیٰ پر چھاپہ مارا، جو اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ حماس نے اس کے خلاف احتجاجاً ہزاروں راکٹ داغے، جس کے بعد اسرائیل نے سینکڑوں فضائی حملوں سے جواب دیا۔ غزہ میں 2014 کے بعد ہوئی اس بدترین لڑائی میں 200 سے زائد افراد مارے گئے۔ اسرائیل میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے۔

اسرائیل میں سلسلے وار حملے

22 مارچ سے 8 اپریل 2022 کے درمیان فلسطینیوں کی طرف سے اسرائیل میں کیے گئے حملوں میں 14 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ جواب میں اسرائیل نے عسکریت پسندوں اور فلسطینی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ مغربی ساحل پر "بریک دی ویو" فوجی آپریشن کا آغاز کیا، جس نے 2022 کو خاص طور پر مہلک سال بنا دیا۔

سنہ 2022 میں 146 فلسطینی ہلاک

اسرائیلی فوج نے 2022 میں مغربی کنارے میں 146 فلسطینیوں کو ہلاک کیا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 2005 میں ریکارڈ محفوظ رکھنے کی شروعات کے بعد سے یہ کسی بھی دوسرے سال کے مقابلے میں سب سے زیادہ اموات ہیں۔ اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اسی سال فلسطینیوں نے 29 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا۔

غزہ کی حالیہ جنگ

اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو حماس کی قیادت میں مزاحمتی تنظیموں کے اسرائیل پر حملے کے بعد شروع ہوئی۔ 15 ماہ تک چلی اس جنگ میں غزہ میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں کم از کم 1,139 اسرائیلی ہلاک ہوئے اور 251 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ غزہ کے میڈیا آفس کے تازہ اعدادوشمار کے مطابق غزہ پر اسرائیل کے حملے میں 61,700 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا ہے کہ غزہ کی تعمیر نو میں 15 سال لگیں گے۔

Last Updated : Feb 6, 2025, 1:39 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.