دیر البلاح، غزہ کی پٹی: صرف تین ماہ کی ریم ابو حیا اپنے خاندان کی واحد رکن تھی جو پیر کو دیر گئے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فضائی حملے میں زندہ بچ گئی۔ شمال کی طرف چند میل (کلومیٹر) کے فاصلے پر، ایک اور حملے میں محمد ابوالقوماسان نے اپنی بیوی اور اپنے جڑواں بچوں کو کھو دیا، جس کی عمر صرف چار دن تھی۔
غزہ میں اسرائیلی جارحیت 10 ماہ سے زیادہ عرصہ سے جاری ہے، الگ تھلگ علاقے پر اسرائیل کی مسلسل بمباری نے وسیع خاندانوں کا صفایا کر دیا ہے۔ اس نے والدین کو بغیر بچوں اور بچوں کو والدین کے بغیر تو بھائیوں کو بہنوں اور بہنوں کو بھائیوں کے بغیر کر دیا ہے۔ اور زندہ بچ جانے والوں میں سے کچھ ایسے جوان ہیں کہ ان کے پاس کھوئے ہوئے لوگوں کی کوئی یادگار تک نہیں ہے۔
پیر کو دیر گئے اسرائیلی حملے میں جنوبی شہر خان یونس کے قریب ایک گھر تباہ ہو گیا جس میں 10 افراد ہلاک ہو گئے۔ مرنے والوں میں ایک معصوم ابو حیا کے والدین اور پانچ بہن بھائی شامل ہیں جن کی عمریں 5 سے 12 سال کے درمیان تھیں اور اسی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں تین دیگر بچوں کے والدین بھی شامل ہیں۔ حملے میں چاروں بچے زخمی ہوئے ہیں۔
ابو حیا کی خالہ، سعد ابو حیا نے کہا کہ، "اس بچے کے علاوہ کوئی نہیں بچا ہے۔" "آج صبح سے، ہم اسے کچھ کھلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن وہ نہیں مانتی، کیونکہ وہ اپنی ماں کے دودھ کی عادی ہے۔"
اس جنگ میں ابوالقوماسن کی بیوی اور نوزائیدہ بچوے ہلاک ہو گئے جس میں ایک لڑکا، اسیر، اور ایک لڑکی، عیسل جڑواں بچے ہیں جن کی نانی بھی ہلاک ہو گئی۔ ابوالقوماسن ایک اسپتال میں بیٹھ کراپنوں کی لاشوں کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا، اس نے اپنے ہاتھوں میں جڑواں بچوں کے برتھ سرٹیفکیٹ اٹھا رکھے تھے۔
ان کی بیوی، جمانہ عرفہ نے چار دن قبل سیزرین سیکشن میں بچوں کو جنم دیا تھا اور فیس بک پر جڑواں بچوں کی آمد کا اعلان کیا تھا۔ منگل کو، وہ مقامی حکومت کے دفتر میں پیدائش کے اندراج کے لیے گئے تھے۔ جب وہ وہاں تھے، پڑوسیوں نے فون کیا کہ ان کے دیر البلاح کے مرکزی شہر کے قریب واقع عارضی گھر پر بمباری کی گئی تھی۔ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوا ہے۔ "مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک گولہ تھا جو گھر پر لگا۔"
اسرائیلی فوج نے فوری طور پر حملوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ فوج کا کہنا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے اور ان کی ہلاکتوں کا الزام حماس پر عائد کرتی ہے۔ صیہونی فوج کا دعویٰ ہے کہ عسکریت پسند گھنے رہائشی علاقوں میں کام کرتے ہیں، بعض اوقات گھروں، اسکولوں، مساجد اور دیگر شہری عمارتوں سے حملے کرتے ہیں۔