نیویارک: ہیومن رائٹس واچ (HRW) نے اسرائیل پر سنگین الزامات لگائے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے جمعرات کو اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ غزہ میں پانی کی فراہمی کو منظم طریقے سے محدود کر رہا ہے جو ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کا سبب بن رہا ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اسرائیل کے ذریعہ غزہ کو پینے کے پانی سے محروم کرنا نسل کشی کی کارروائیوں کے مترادف ہے۔
جنوبی افریقہ سمیت کئی ممالک نے غزہ جنگ میں اسرائیل پر نسل کشی کی کارروائیوں کا الزام لگایا ہے، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی انسانی حقوق گروپ نے اسرائیل پر نسل کشی کا الزام لگایا ہے۔ اسرائیل نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی جنگ غزہ کے شہریوں سے نہیں بلکہ حماس کے عسکریت پسندوں سے ہے۔
جمعرات کی رپورٹ میں، ہیومن رائٹس واچ نے الزام لگایا ہے کہ اسرائیلی حکام کی جانب سے جنگ کے دوران غزہ میں جان بوجھ کر پانی کی سپلائی، بجلی کی ترسیل کو بند کرنا، اہم سامان کی تقسیم کو روکنا، بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنا ایسے اقدامات ہیں جس کے نتیجے میں لاتعداد شیر خوار، بچوں اور بالغوں کے غذائی قلت، پانی کی کمی اور بیماری سے ہلاکت کا سبب بن چکے ہیں۔
نیو یارک میں مقیم گروپ کے مطابق، اسرائیل کی یہ پالیسی، یہ کارروائیاں ایک وسیع یا منظم حملے کی تشکیل کرتی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ، اسرائیلی حکام انسانیت کے خلاف قتل و غارت گری کے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔
اسرائیل کی وزارت خارجہ نے کہا کہ "ہیومن رائٹس واچ ایک بار پھر اپنے اسرائیل مخالف پروپیگنڈے کو فروغ دے رہا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے پوری جنگ کے دوران غزہ میں پانی اور انسانی امداد کے ترسیل کو آسان بنانے کے لیے کام کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "اسرائیل اس بات کو یقینی بنائے گا کہ، بین الاقوامی قانون کی مکمل پاسداری کرتے ہوئے انسانی امداد غزہ میں داخل ہو۔
انسانی حقوق کے گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں پانی کی سپلائی میں کافی حد تک کمی کر دی ہے۔ غزہ میں جنگ شروع ہونے سے پہلے ہر روز تقریباً 83 لیٹر (21 گیلن) فی شخص پانی سپلائی کیا جاتا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ لوگوں کو بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور بیماری کو قابو میں رکھنے کے لیے روزانہ 50 سے 100 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ اسرائیلی فورسز نے جان بوجھ کر غزہ کے چھ میں سے چار گندے پانی کی صفائی کے پلانٹس کو چلانے والے سولر پینلز کو مسمار کر دیا اور ایک اہم پانی کے ذخائر کو تباہ کر دیا۔ گروپ نے الزام لگایا کہ اسرائیل نے ڈی سیلینیشن پلانٹس اور دیگر انفراسٹرکچر چلانے کے لیے درکار بجلی بھی کاٹ دی اور بیک اپ جنریٹرز کے لیے ایندھن کو محدود کر دیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اسرائیل پر جنوری میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے فلسطینیوں کو بنیادی خدمات اور مدد فراہم کرنے کے حکم نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔
ہیومن رائٹس واچ نے کہا کہ، اسرائیل کی کارروائیوں کو نسل کشی کے مترادف قرار دینے کے نتائج 60 سے زائد فلسطینیوں کے انٹرویوز، یوٹیلیٹی ملازمین، ڈاکٹروں اور دیگر صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں اور امدادی کارکنوں کے اکاؤنٹس اور سیٹلائٹ تصاویر اور ویڈیو کے تجزیے پر مبنی ہیں۔
گروپ نے کہا، ڈاکٹروں اور نرسوں نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا کہ انہوں نے بہت سے شیر خوار، بچوں اور بالغوں کو غذائی قلت، پانی کی کمی اور بیماری سے مرتے دیکھا ہے۔
اپنے بیان میں، اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا کہ اس نے پانی کی چار پائپ لائنوں کے ساتھ ساتھ پانی کے پمپنگ اور صاف کرنے کی سہولیات کا کام جاری رکھا ہے، اور بین الاقوامی امدادی گروپوں کو ٹینکروں میں پانی پہنچانے کی اجازت دی ہے۔
طبی امدادی گروپ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیل نے غزہ کے ہیلتھ سیکٹر کو منظم طریقے سے تباہ کر دیا اور خطہ میں ضروری انسانی امداد کو محدود کر دیا۔
20 سال سے زائد عرصے سے غزہ میں کام کرنے والے گروپ نے کہا کہ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک اس کے عملے کو 40 سے زیادہ حملوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے، جن میں صحت کی سہولیات پر فضائی حملے، گولہ باری اور فوجی حملے شامل ہیں۔ ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے کہا کہ اکتوبر تک غزہ کے 36 اسپتالوں میں سے 19 بند کر دیے گئے اور مسلسل لڑائی نے بہت سے رہائشیوں کو ان تک پہنچنے سے روک دیا جو اب بھی کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: