تل ابیب:صدر جو بائیڈن نے کہا کہ اگر عسکریت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے کچھ اسیروں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اسرائیل ماہ رمضان کے دوران غزہ میں حماس کے خلاف اپنی جنگ روکنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم، اسرائیل اور حماس نے منگل کے روز غزہ میں جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں کسی پیش رفت کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے۔
امریکہ، مصر اور قطر کے مذاکرات کار ایک فریم ورک ڈیل پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت حماس فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور لڑائی میں چھ ہفتے کے وقفے کے بدلے میں اپنے زیر قبضہ درجنوں یرغمالیوں میں سے کچھ کو رہا کرے گی۔ عارضی توقف کے دوران بقیہ مغویوں کی رہائی کے لیے مذاکرات جاری رہیں گے۔
دوسری جانب قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے منگل کو غزہ میں جنگ بندی کے لیے سفارتی دباؤ کو وقت کے خلاف ایک دوڑ سے تعبیر کیا۔
شیخ تمیم بن حمد الثانی نے فرانس کے سرکاری دورے کے دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی طرف سے دیئے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، دونوں ممالک غزہ کی سفارت کاری پر پوری شدت سے کام کر رہے ہیں۔ الثانی نے غزہ میں بڑھتی ہوئی ہلاکتوں پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
الثانی نے کہا کہ، "دنیا فلسطینی عوام کی نسل کشی کو دیکھ رہی ہے۔ بھوک، جبراً بے گھر کیا جانا، وحشیانہ بمباری کو ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جانا سب دیکھ رہے ہیں۔ لیکن عالمی برادری ابھی تک غزہ میں جنگ کے خاتمے اور کم سے کم بچوں، خواتین اور شہریوں کے لیے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ایک متفقہ موقف اپنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کو امید ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ اگلے ہفتے کے اوائل تک نافذ العمل ہو سکتا ہے۔ جو بائیڈن نے یہ بھی امید ظاہر کی ہے کہ اسرائیل غزہ میں رمضان المبارک کے دوران فوجی کارروائی روک دے گا۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک ہفتے کی جنگ بندی کے لیے بات چیت جاری ہے تاکہ غزہ میں عسکریت پسند گروپ کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کی رہائی کو ممکن بنایا جا سکے۔ ان یرغمالیوں کے بدلے میں اسرائیل نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کی تجویز ہے۔ جنگ بندی معاہدہ میں چھ ہفتے کے مجوزہ وقفے میں روزانہ سینکڑوں ٹرکوں کو غزہ میں اشد ضروری امداد پہنچانے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: