غزہ:اسرائیلی جارحیت کے چلتے کھنڈر میں تبدیل ہو چکا غزہ رمضان کی آمد کی خوشیاں بھی نہ منا سکا۔ رمضان سے قبل 6 ہفتوں کی جنگ بندی کی یقین دہانی کرانے والے امریکہ اور مغربی ممالک نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اب جنگ بندی کے بجائے صرف انسانی امداد پر زور دیا جا رہا ہے۔
غزہ کے جو مسلمان پہلے ہی سے دن میں ایک وقت کی خوراک کے لیے مارے مارے پھر رہے ہوں وہ رمضان المبارک کا اہتمام کیسے کریں گے، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ ماؤں کو کھانے کے لیے کھانا نہیں ہے جس سے بچوں کو دودھ کی کمی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بچوں کو ایک وقت کا کھانا کھلانے کے لیے فلسطینی خاندان کے بڑے فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حالات اتنے ابتر ہو چکے ہیں کہ فلسطینی کچرے اور ملبے میں کھانے کی اشیاء تلاش کر رہے ہیں۔
بھوک سے مغلوب فلسطینیوں کو پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔ اسرائیلی افواج نے غزہ میں چن چن کر پانی کے ذخیروں کو نشانہ بنایا ہے۔ اب جبکہ ایک وقت کا کھانا میسر نہیں ہے ان حالات میں غزہ کے مسلمان سحر و افطار کا انتظام کیسے کریں گے یہ بڑا سوال ہے۔
زمینی ترسیل پر اسرائیلی کنٹرول کے بعد غزہ کے مہلک انسانی بحران پر بڑھتے ہوئے خطرے کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکہ، اردن اور دیگر کی طرف سے ہوائی جہازوں کے ساتھ ساتھ سمندری راہداری کے افتتاح نے ایک امید کی کرن پیدا کی تھی۔ لیکن امدادی حکام کا کہنا ہے کہ فضائی اور سمندری ترسیل زمینی راستوں کی کمی کو پورا نہیں کر سکتی۔ روزانہ غزہ میں داخل ہونے والے امدادی ٹرک جنگ سے پہلے داخل ہونے والے 500 ٹرکوں سے بہت کم ہیں۔