اردو

urdu

ETV Bharat / international

ٹرمپ کا وہ حکم جس سے ہندوستانی خواتین قبل از وقت بچے پیدا کر رہی تھیں، فی الحال اس پرلگی عارضی روک - TRUMPS EXECUTIVE ORDER

ٹرمپ کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے بعد ہندوستانی خواتین قبل از وقت بچوں کی ڈیلیوری کرانے کے لیے اسپتال پہنچ رہی ہیں۔

ٹرمپ کا وہ حکم جس سے ہندوستانی خواتین قبل از وقت بچے پیدا کر رہی تھیں، فی الحال اس پرلگی عارضی روک
ٹرمپ کا وہ حکم جس سے ہندوستانی خواتین قبل از وقت بچے پیدا کر رہی تھیں، فی الحال اس پرلگی عارضی روک (Etv Bharat)

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Jan 24, 2025, 7:27 AM IST

سیئٹل: ایک وفاقی جج نے جمعرات کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیدائشی حق شہریت کے اصول میں تبدیلی کرنے والے ایگزیکٹو آرڈر پر عارضی طور پر روک لگا دی ہے۔ اس ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ اس ایگزیکٹو آرڈر میں ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والے والدین کے بچوں کو امریکی شہریت دینے سے انکار کیا گیا تھا اور اس حکم کو چیلنج کرنے والی کثیر ریاستی کوششوں میں پہلی سماعت کے دوران اسے غیر آئینی قرار دیا۔

کیا کہتی ہے امریکی آئین کی 14ویں ترمیم اور ٹرمپ کیا چاہتے ہیں تبدیلی؟

امریکی آئین میں 14ویں ترمیم کے مطابق امریکی سرزمین پر پیدا ہونے والوں کو یہاں کی شہریت دی جاتی ہے، جس کی 1868 میں توثیق کی گئی تھی تاکہ خانہ جنگی کے بعد سابق غلاموں کے لیے شہریت کو یقینی بنایا جا سکے۔ لیکن غیر قانونی امیگریشن پر لگام کسنے کے لیے ٹرمپ نے پیر کو اپنی دوسری مدت کے لیے حلف اٹھانے کے فوراً بعد یہ ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا کر دیا۔

اس حکم کے مطابق 19 فروری کے بعد امریکہ میں پیدا ہونے والے ان بچوں کو شہریت نہیں دی جائے گی جن کے والدین غیر قانونی طور پر ملک میں ہیں۔ اس آرڈر میں واضح کیا گیا ہے کہ، امریکی ایجنسیاں ایسے بچوں کی شہریت کو تسلیم کرنے والی کسی بھی دستاویز کو نہ ہی جاری کریں نہ ہی کسی بھی ریاستی دستاویز کو قبول کریں۔

امریکہ ان 30 ممالک میں شامل ہے جہاں پیدائشی حق شہریت کا اصول لاگو ہوتا ہے۔

سابق غلاموں اور آزاد افریقی امریکیوں کے لیے شہریت کو یقینی بنانے کے لیے خانہ جنگی کے بعد 1868 میں 14ویں ترمیم کی توثیق کی گئی۔ اس میں کہا گیا ہے، "وہ تمام افراد جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں پیدا ہوئے ریاستہائے متحدہ اور اس ریاست کے شہری ہیں جہاں وہ رہتے ہیں۔

ٹرمپ کے حکم میں زور دیا گیا ہے کہ غیر شہریوں کے بچے ریاستہائے متحدہ کے دائرہ اختیار کے تابع نہیں ہیں، اور اس وجہ سے وہ شہریت کے حقدار نہیں ہیں۔

وفاقی جج نے ایگزیکٹو آرڈر پر کیا کہا؟

ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف 22 ریاستوں اور تارکین وطن کے حقوق کے متعدد گروپوں کی جانب سے کم از کم پانچ مقدمے دائر کیے گئے۔ واشنگٹن، ایریزونا، اوریگون اور الینوائے کی طرف سے دائر مقدمے کی سماعت سب سے پہلے ہوئی۔

امریکی ڈسٹرکٹ جج جان کوگنور نے محکمہ انصاف کے ایک وکیل کو بتایا کہ، میں چار دہائیوں سے زیادہ عرصے سے بنچ پر رہا ہوں۔ مجھے کوئی دوسرا کیس یاد نہیں ہے جہاں پیش کیا گیا سوال اتنا واضح تھا جتنا کہ یہ ہے۔ جج نے کہا کہ، یہ ایک صریح غیر آئینی حکم ہے۔

اس فیصلے پر ٹرمپ انتظامیہ اگلے 14 دنوں کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر عمل درآمد کے لیے اقدامات نہیں کر سکے گی۔ کیس کی اگلی سماعت چھ فروری کو ہو گی۔

محکمہ انصاف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ، وہ صدر کے ایگزیکٹو آرڈر کا مضبوطی کے ساتھ دفاع کرے گا۔

نئے آیگزیکٹو آرڈر سے ہندوستانیوں میں خوف کا ماحول:

ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ حکم نامہ ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کے 30 دن بعد نافذ العمل ہونا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 19 فروری کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کو امریکہ کی پیدائشی شہریت نہیں ملے گی۔ اس وجہ سے بہت سے خاندان چاہتے ہیں کہ ان کے بچے 20 فروری سے پہلے پیدا ہوں اور انہیں پیدائشی حق شہریت مل جائے۔

ڈیلیوری کے لیے لمبی قطار:

ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق نیو جرسی کے ایک میٹرنٹی کلینک میں ڈاکٹر ایس ڈی راما نے کہا کہ ٹرمپ کے 14ویں ترمیم میں ترمیم کے اقدام کی وجہ سے بچوں کی قبل از وقت پیدائش کے لیے ایک لمبی قطارلگ گئی ہے۔ خواتین نے ان سے درخواست کی ہے کہ وہ مقررہ تاریخ سے پہلے اپنے بچوں کی پیدائش کرانا چاہتی ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ ڈیلیوری 20 فروری سے پہلے ہو جائے تاکہ ان کے بچوں کو پیدائشی حق امریکی شہریت مل جائے۔

ڈاکٹر راما نے کہا کہ ان کے کلینک کے باہر لمبی قطار میں کھڑی خواتین میں زیادہ تر ہندوستانی خواتین ہیں جو 8 اور 9 ماہ کی حاملہ ہیں۔ تمام خواتین 20 فروری سے پہلے سی سیکشن کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ ایک خاتون جو سات ماہ کی حاملہ ہے اور مارچ میں ڈلیوری ہونے والی ہے اپنے شوہر کے ساتھ جلد سی سیکشن کے لیے دستاویزات پر دستخط کر رہی ہے۔

قبل از وقت ڈیلیوری ایک بہت بڑا خطرہ:

امریکہ میں پیدائشی حق شہریت کے حصول کی دوڑ کو دیکھتے ہوئے ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے گائناکالوجسٹ ڈاکٹر ایس جی مکلا نے کہا کہ میں تمام جوڑوں کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ قبل از وقت ڈیلیوری ممکن ہے لیکن یہ بچے کے لیے بہت نقصان دہ ہے۔ "یہ ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، یہ دونوں کے لیے ایک چیلنج بن سکتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کو پھیپھڑوں کے مسائل، پیدائش کا کم وزن اور اعصابی مسائل ہو سکتے ہیں۔ ڈاکٹر مکلا نے کہا، "پچھلے دو دنوں میں، میں نے اس بارے میں 15 سے 20 جوڑوں سے بات کی ہے۔"

لوگوں کے لیے پیدائشی شہریت کیوں اہم ہے؟

ریاستہائے متحدہ میں رہنے والے بہت سے لوگوں کے لیے پیدائشی حق شہریت ایک اعزاز ہے۔ اس سے ہندوستانیوں کو سیکورٹی حاصل کرنے اور ملک میں رہنے کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ اس بارے میں بات کرتے ہوئے ورون نامی شخص نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ہمارا بچہ یہاں پیدا ہو۔ ورون گزشتہ آٹھ سالوں سے H-1B ویزا پر اپنی بیوی کے ساتھ امریکہ میں رہ رہے ہیں۔

جوڑے نے کہا، ہم چھ سال سے اپنے گرین کارڈ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمارے خاندان کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے پیدائشی شہریت ہی واحد راستہ تھا، لیکن ہم اچانک ہونے والی تبدیلیوں سے خوفزدہ ہیں۔ ورون کی بیوی کی عمر 34 سال ہے اور وہ مارچ کے شروع میں ایک بچے کو جنم دینے والی ہیں۔

ایک 28 سالہ فنانس پروفیشنل نے اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ اگر اس کی بیوی 20 فروری کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے اور اس دوران پیدائشی شہریت کے قوانین بدل جاتے ہیں تو اس کے لیے ملک میں رہنا اور کام کرنا مشکل ہو جائے گا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے امریکہ آنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں اور اب انھیں لگتا ہے کہ ان کے لیے دروازے بند ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

ABOUT THE AUTHOR

...view details