ممبئی: مشہور شاعر اور نغمہ نگار شکیل بدایونی کا اپنی زندگی کے تئیں نظریہ ان کے اس شعر میں پنہاں ہے، میں شکیل دل کا ہوں ترجماں کہ محبتوں کا ہوں رازداں، مجھے فخر ہے مری شاعری مری زندگی سے جدا نہیں۔ شکیل احمد، تین اگست 1916 کو اتر پردیش کے بدایوں قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب اور پیشے سے امام تھے، اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔
اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے شکیل 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ شکیل نے علی مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو انہوں نے انٹر کالج، انٹر یونیورسٹی کے مشاعروں میں حصہ لینا شروع کیا اور مسلسل ان مشاعروں کو اپنے نام کیا۔
شکیل احمد علی گڑھ سے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1942 میں دہلی میں سینٹرل گورنمنٹ میں محکمۂ سپلائی میں کلرک کی حیثیت سے نوکری کی۔ شکیل دہلی میں تقریباً 1946 ء تک مقیم رہے۔ اس کے بعد وہ فروری 1946 ایک مشاعرے کے سلسلے میں بمبئی گئے جہاں ان کی ملاقات مشہور فلم ساز کاردار سے ہوئی۔ اس دوران انہوں نے مختلف مشاعروں میں حصہ لیا جہاں ان کے کلام کی عزت افزائی کی گئی۔ اے آر کاردار کے اصرار پر شکیل نے مستقل طور پر بمبئی کو ہی اپنی رہائش گاہ بنالیا۔ انہوں نے 1940 میں سلمی سے شادی کی جو ان کی دور کی رشتہ دار تھیں جو ان کے ساتھ بچپن سے ہی جوائنٹ فیملی میں رہتی تھیں۔
شکیل نے سو سے زیادہ فلموں کے اردو ، ہندی اور پوربی زبانوں میں گیت لکھے علی گڑھ میں قیام کے دوران جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے اور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے، جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔
نوشاد کے کہنے پر شکیل نے ’ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے، ہر دل میں محبت کی آگ لگا دیں گے‘ گیت لکھا۔ یہ گیت نوشاد کو کافی پسند آیا جس کے بعد انہیں فوراً کاردار صاحب کی ’درد‘ کے لیے سائن کر لیا گیا۔ سال 1947 میں اپنی پہلی ہی فلم ’درد‘ کے گیت ’افسانہ لکھ رہی ہوں‘ کی بے پناہ کامیابی سے شکیل بدایونی کامیابی کی چوٹی پر جا بیٹھے۔