لکھنؤ:اتر پردیش کی مدارس تنظیموں نے آلہ آباد ہائی کورٹ لکھنؤ بنچ کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی ہے جس کی سماعت آج یعنی پانچ اپریل کو چیف جسٹس آف انڈیا کی بینچ کرے گی۔ مدارس تنظیموں نے ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگا کر مدارس کی سابقہ پوزیشن کو بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاہم یو پی اقلیتی محکمہ نے سپریم کورٹ میں فیصلے کو چیلنج کرنے کے بجائے کویٹ داخل کر کے اپنے منصوبے کو صاف کر دیا ہے۔ (کویٹ کے ذریعہ عدالت سے درخواست کی جاتی ہے کہ فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواست کو بغیر سماعت کے ہی خارج کردیا جائے)۔
وہیں یو پی کی چیف سیکرٹری درگا پرساد نے ایک حکم نامہ جاری کر کے ہائی کورٹ کے فیصلے کو نافذ کرنے کی بات کہی ہے اور کہا ہے کہ ریاست بھر کے مدرسوں میں زیر تعلیم طلبا و طالبات کو دیگر بورڈ کے اسکول میں ان کے مساوی کلاس داخلہ کرا کر کے شفٹ کیا جائے۔ انہوں نے اس کے لیے ضلع سطح پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر اسکول کی بھی ضرورت ہو تو اسکول کی تعمیر کرائی جائے اور دیگر اسکول میں داخلے کی سیٹ میں بھی اضافہ کیا جائے۔
درگا پرساد نے یو پی اقلیتی محکمہ کے ساتھ ریاست کے سبھی ضلع کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو خط جاری کر دیا ہےجس میں لکھا ہے کہ اتر پردیش مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ، 2004 کو ہائی کورٹ کے لکھنؤ بنچ کے غیر آئینی قرار دیے جانے کے نتیجے میں، مدارس کی منظوری خود بخود ختم ہو گئی ہے۔ لہذا جو مدارس معیارات کے مطابق ہیں وہ یوپی بورڈ یا دیگر بورڈ سے منظوری حاصل کر مدراس میں پرائمری/سیکنڈری اسکول چلا سکتے ہیں۔اور وہ مدارس جو غیر معیاری سہولیات کی بنیاد پر بورڈ سے قانونی منظوری حاصل نہیں کرسکتے، مدرسہ بورڈ کے ختم ہونے پر وہ خود بخود بند ہو جائیں گے، جس کی وجہ سے ان مدارس میں زیر تعلیم طلباء کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔