ETV Bharat / jammu-and-kashmir

سون میراث: سرینگر میں کشمیر کے ماضی کی یاد میں نمائش - A VILLAGE IN THE CITY

سون میراث - ہمارا ورثہ، حکومت کے زیر اہتمام ایک ثقافتی ورثے کا میلہ ہے جسے دیکھنے کیلئے مقامی لوگ جوق در جوق آرہے ہیں۔

سون میراث: سرینگر میں کشمیر کے ماضی کی یاد میں نمائش
سون میراث: سرینگر میں کشمیر کے ماضی کی یاد میں نمائش (Image Source: ETV Bharat)
author img

By Mir Farhat Maqbool

Published : Feb 25, 2025, 8:30 PM IST

سری نگر: سرینگر کے ایک گنجان آباد علاقے سے تعلق رکھنے والی طالبہ حمیرا نے کبھی کمہار کے بنائے ہوئے مٹی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگایا ہے اور نہ ہی اس نے گھاس پھوس کی چھت والے کچے مکان کو کبھی دیکھا ہے یا اس میں قدم رکھا ہے۔ حمیرا کو یہ بھی پتہ نہیں کہ کس طرح اوکھلی میں چاول کے دانے، دھان سے نکالے جاتے ہیں۔ لیکن حمیرا یہ سب کچھ اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔اسے یہ سب ناقابل یقین لگ رہا ہے جب وہ سری نگر شہر میں عارضی طور قائم کئے گئے ایک اؤں میں یہ مناظر دیکھ رہی ہیں۔

اس گاؤں کو ان گلکاروں اور مزدوروں نے تعمیر کیا ہے جو اب صرف کنکریٹ کے گھر بنا رہے ہیں۔ یہ گھاس پھوس کی چھت والے مکانات، چکی پر برتن بناتا ہوا ایک کمہار اور روایتی کھیل جیسے چبڈی اور گلی ڈنڈا کھیل رہے بچے، سری نگر کے کشمیر ہاٹ ایگزیبیشن گراؤنڈ میں ایک مصنوعی یا عارضی گاؤں میں نمائش کے لیے پیش کیے گئے جنہیں دیکھ کر شہر کے بچے محظوظ ہورہے ہیں۔

سری نگر کے کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے مصنوعی گاؤں کا ایک منظر
سری نگر کے کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے مصنوعی گاؤں کا ایک منظر (Image Source: ETV Bharat)

سون میراث - ہمارا ورثہ، دراصل جموں و کشمیر حکومت کے زیر اہتمام ایک ثقافتی ورثے کا میلہ ہے جسے دیکھنے کیلئے مقامی لوگ جوق در جوق آرہے ہیں۔ ان بچوں نے کشمیر کے ماضی کے بارے میں یہ کہانیاں اپنے بڑے بزرگوں سے سنی تھیں لیکن اب وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

سری نگر کے کوٹھی باغ علاقے میں واقع سرکاری اسکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ حمیرا کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے دادا دادی سے کچے مکانوں، کھاس پھوس کی چھت والی جھونپڑیوں اور مٹی کے برتنوں کی کہانیاں سنی ہیں۔ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ اس عارضی گاؤں کا دورہ کرتے ہوئے حمیرا کو وہ سب باتیں یاد آرہی ہیں جنکا تزکرہ کہانیوں کی صورت میں ان کے بزرگوں نے کیا تھا۔

کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں مٹی کا بنا کچہ مکان
کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں مٹی کا بنا کچہ مکان (Image Source: ETV Bharat)

آج کل کے گھر سیمنٹ اور ٹین سے بنے ہیں۔ پلاسٹک، تانبے اور سٹیل نے مٹی کے برتنوں کی جگہ لے لی ہے۔ اور ساز لونگ (ہاپسکوچ یا چبڈی)، گلی ڈنڈا (ٹپ-کیٹ) اور پیٹھو (سات پتھروں کا کھیل) اب صرف کہانیوں کا حص ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچے اب وہ پرانے کھیل نہیں کھیلتے، وہ اب والی بال، کھو کھو اور دوسرے کھیل کھلتے ہیں۔ حمیری اور اس کے ساتھیوں نے کوشش کی وہ پرانے کھیل کھیلیں اور لطف اندوز ہوجائیں۔ ان کی طرح ان کے ہم جماعت لڑکوں راحیل بشیر خان اور ایان ظہور نے بھی ہاپ اسکاچ اور گلی ڈنڈا کھیل کر ماضی کے ساتھ جڑنے کی کوشش کی۔

کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں چولہے میں آگ جلاتے بچے
کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں چولہے میں آگ جلاتے بچے (Image Source: ETV Bharat)

لائن آف کنٹرول کے قریب کپواڑہ کے ایک خوبصورت گاؤں کیرن کے رہنے والے راہل ریاض خان، اب سری نگر کے ایک یتیم خانے میں پڑھتے ہیں۔ خان نے بتایا کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں گھاس کے ڈھیر دیکھے ہیں لیکن کبھی پرانے کچے مکانات یا مٹی کے برتن نہیں دیکھے۔ راہل ریاض ساتویں جماعت کا طالب علم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب لڑکے لڑکیاں سمارٹ فونز پر گیمز کھیلتے ہیں، ہاپ اسکاچ یا گلی ڈنڈا جیسے کھیل ان کی سمجھ سے باہر ہیں۔ سری نگر کے آٹھویں جماعت کے طالب علم آیان ظہور نے کہا کہ نمائش میں رکھی گئی اشیاء پرانے دور کی ہیں۔ یہ چیزیں اب دیہات میں نہیں مل سکتیں۔ اسٹیل اور تانبے کے برتنوں نے مٹی کے برتنوں کی جگہ لے لی ہے۔ کرکٹ اور فٹ بال ہمارے کھیل ہیں۔ میں ہاپ اسکاچ یا گلی ڈنڈا نہیں کھیل سکتا کیونکہ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی کھیلا۔ میں موبائل فون پر کھیلتا ہوں۔

کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں
کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں (Image Source: ETV Bharat)

ایان ظہور نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں کہا۔ سری نگر کے ایک 60 سالہ شالباف بشیر احمد بٹ نے آنے والی نسلوں کے لیے اس طرح کے ورثے کو محفوظ رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔

کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں ٹائر اور سائیکل کے رم سے کھیلتے بچے
کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں ٹائر اور سائیکل کے رم سے کھیلتے بچے (Image Source: ETV Bharat)

سری نگر کے نشاط علاقے کے ایک معروف کمہار عبدالسلام کمار نے بتایا کہ آج کل بہت کم لوگ مٹی کے برتن خریدتے ہیں۔ اب کوئی بھی پانی یا دودھ ذخیرہ کرنے کے لیے مٹی کے برتن نہیں خریدتا ہے۔ کچھ لوگ انہیں صرف اپنے گھروں کو سجانے کیلئے خریدتے ہیں لیکن ان کا اصل استعمال اب گھروں سے دور ہوچکا ہے۔

کمہار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا۔ اپنی چکی کو کھماتے ہوئے جب کمہار گیلی مٹی سے مختلف کچے برتن تخلیق کرتے ہیں تو یہ عمل لوگوں اور اسکولی بچوں کیلئے بہت قابل توجہ بن رہا ہے۔ لوگوں کا ہجوم کمہار کے گرد جمع ہوا ہے اور کئی لوگ ان کے فن کی علس بندی اپنے موبائل فونز میں بھی کررہے ہیں۔ وادی بھر کے جدید گھروں میں، روایتی مٹی کے کچن کو گیس کے چولہے، الیکٹرک ہیٹر اور انڈکشن ککر سے بدل دیا گیا ہے جو اسٹیل یا تانبے کو گرم کرنے کے لیے بہتر ہے۔

کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں
کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں (Image Source: ETV Bharat)

کمہار کا کہنا ہے کہ ان آلات پر مٹی کے برتنوں کا استعمال کرنا ذرا مشکل ہے کیونکہ سخت تمازت سے ان کے ٹوٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ان کے مطابق تاہم کمہاروں کے پاس اس کا حل موجود ہے۔ جب وہ مٹی میں کچھ ریت ملاکر اس سے برتن بناتے ہیں تو ایسے برتنوں کے ٹوٹنے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ کمہار کو خوشی ہے کہ حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے اس عارضی گاؤں کو دیکھنے کیلئے لوگ آرہے ہیں اور وہ ان کے آبائی کام کو بھی دیکھنے کیلئے اپنا وقت نکال رہے ہیں۔ انہیں اس وقت خوشی دوچند ہوجاتی ہے جب بچے بچیاں ان کے ساتھ سیلفیاں لیتے ہیں۔

سری نگر: سرینگر کے ایک گنجان آباد علاقے سے تعلق رکھنے والی طالبہ حمیرا نے کبھی کمہار کے بنائے ہوئے مٹی کے برتن کو ہاتھ نہیں لگایا ہے اور نہ ہی اس نے گھاس پھوس کی چھت والے کچے مکان کو کبھی دیکھا ہے یا اس میں قدم رکھا ہے۔ حمیرا کو یہ بھی پتہ نہیں کہ کس طرح اوکھلی میں چاول کے دانے، دھان سے نکالے جاتے ہیں۔ لیکن حمیرا یہ سب کچھ اب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔اسے یہ سب ناقابل یقین لگ رہا ہے جب وہ سری نگر شہر میں عارضی طور قائم کئے گئے ایک اؤں میں یہ مناظر دیکھ رہی ہیں۔

اس گاؤں کو ان گلکاروں اور مزدوروں نے تعمیر کیا ہے جو اب صرف کنکریٹ کے گھر بنا رہے ہیں۔ یہ گھاس پھوس کی چھت والے مکانات، چکی پر برتن بناتا ہوا ایک کمہار اور روایتی کھیل جیسے چبڈی اور گلی ڈنڈا کھیل رہے بچے، سری نگر کے کشمیر ہاٹ ایگزیبیشن گراؤنڈ میں ایک مصنوعی یا عارضی گاؤں میں نمائش کے لیے پیش کیے گئے جنہیں دیکھ کر شہر کے بچے محظوظ ہورہے ہیں۔

سری نگر کے کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے مصنوعی گاؤں کا ایک منظر
سری نگر کے کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے مصنوعی گاؤں کا ایک منظر (Image Source: ETV Bharat)

سون میراث - ہمارا ورثہ، دراصل جموں و کشمیر حکومت کے زیر اہتمام ایک ثقافتی ورثے کا میلہ ہے جسے دیکھنے کیلئے مقامی لوگ جوق در جوق آرہے ہیں۔ ان بچوں نے کشمیر کے ماضی کے بارے میں یہ کہانیاں اپنے بڑے بزرگوں سے سنی تھیں لیکن اب وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔

سری نگر کے کوٹھی باغ علاقے میں واقع سرکاری اسکول میں چھٹی جماعت کی طالبہ حمیرا کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنے دادا دادی سے کچے مکانوں، کھاس پھوس کی چھت والی جھونپڑیوں اور مٹی کے برتنوں کی کہانیاں سنی ہیں۔ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ اس عارضی گاؤں کا دورہ کرتے ہوئے حمیرا کو وہ سب باتیں یاد آرہی ہیں جنکا تزکرہ کہانیوں کی صورت میں ان کے بزرگوں نے کیا تھا۔

کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں مٹی کا بنا کچہ مکان
کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں مٹی کا بنا کچہ مکان (Image Source: ETV Bharat)

آج کل کے گھر سیمنٹ اور ٹین سے بنے ہیں۔ پلاسٹک، تانبے اور سٹیل نے مٹی کے برتنوں کی جگہ لے لی ہے۔ اور ساز لونگ (ہاپسکوچ یا چبڈی)، گلی ڈنڈا (ٹپ-کیٹ) اور پیٹھو (سات پتھروں کا کھیل) اب صرف کہانیوں کا حص ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بچے اب وہ پرانے کھیل نہیں کھیلتے، وہ اب والی بال، کھو کھو اور دوسرے کھیل کھلتے ہیں۔ حمیری اور اس کے ساتھیوں نے کوشش کی وہ پرانے کھیل کھیلیں اور لطف اندوز ہوجائیں۔ ان کی طرح ان کے ہم جماعت لڑکوں راحیل بشیر خان اور ایان ظہور نے بھی ہاپ اسکاچ اور گلی ڈنڈا کھیل کر ماضی کے ساتھ جڑنے کی کوشش کی۔

کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں چولہے میں آگ جلاتے بچے
کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں چولہے میں آگ جلاتے بچے (Image Source: ETV Bharat)

لائن آف کنٹرول کے قریب کپواڑہ کے ایک خوبصورت گاؤں کیرن کے رہنے والے راہل ریاض خان، اب سری نگر کے ایک یتیم خانے میں پڑھتے ہیں۔ خان نے بتایا کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں گھاس کے ڈھیر دیکھے ہیں لیکن کبھی پرانے کچے مکانات یا مٹی کے برتن نہیں دیکھے۔ راہل ریاض ساتویں جماعت کا طالب علم ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اب لڑکے لڑکیاں سمارٹ فونز پر گیمز کھیلتے ہیں، ہاپ اسکاچ یا گلی ڈنڈا جیسے کھیل ان کی سمجھ سے باہر ہیں۔ سری نگر کے آٹھویں جماعت کے طالب علم آیان ظہور نے کہا کہ نمائش میں رکھی گئی اشیاء پرانے دور کی ہیں۔ یہ چیزیں اب دیہات میں نہیں مل سکتیں۔ اسٹیل اور تانبے کے برتنوں نے مٹی کے برتنوں کی جگہ لے لی ہے۔ کرکٹ اور فٹ بال ہمارے کھیل ہیں۔ میں ہاپ اسکاچ یا گلی ڈنڈا نہیں کھیل سکتا کیونکہ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی کھیلا۔ میں موبائل فون پر کھیلتا ہوں۔

کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں
کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں (Image Source: ETV Bharat)

ایان ظہور نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات چیت میں کہا۔ سری نگر کے ایک 60 سالہ شالباف بشیر احمد بٹ نے آنے والی نسلوں کے لیے اس طرح کے ورثے کو محفوظ رکھنے کی اہمیت پر زور دیا۔

کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں ٹائر اور سائیکل کے رم سے کھیلتے بچے
کشمیر ہاٹ نمائش کے مصنوعی گاؤں میں ٹائر اور سائیکل کے رم سے کھیلتے بچے (Image Source: ETV Bharat)

سری نگر کے نشاط علاقے کے ایک معروف کمہار عبدالسلام کمار نے بتایا کہ آج کل بہت کم لوگ مٹی کے برتن خریدتے ہیں۔ اب کوئی بھی پانی یا دودھ ذخیرہ کرنے کے لیے مٹی کے برتن نہیں خریدتا ہے۔ کچھ لوگ انہیں صرف اپنے گھروں کو سجانے کیلئے خریدتے ہیں لیکن ان کا اصل استعمال اب گھروں سے دور ہوچکا ہے۔

کمہار نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا۔ اپنی چکی کو کھماتے ہوئے جب کمہار گیلی مٹی سے مختلف کچے برتن تخلیق کرتے ہیں تو یہ عمل لوگوں اور اسکولی بچوں کیلئے بہت قابل توجہ بن رہا ہے۔ لوگوں کا ہجوم کمہار کے گرد جمع ہوا ہے اور کئی لوگ ان کے فن کی علس بندی اپنے موبائل فونز میں بھی کررہے ہیں۔ وادی بھر کے جدید گھروں میں، روایتی مٹی کے کچن کو گیس کے چولہے، الیکٹرک ہیٹر اور انڈکشن ککر سے بدل دیا گیا ہے جو اسٹیل یا تانبے کو گرم کرنے کے لیے بہتر ہے۔

کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں
کشمیر ہاٹ نمائشی میدان میں بنائے گئے ایک مصنوعی گاؤں میں بچے کھیل رہے ہیں (Image Source: ETV Bharat)

کمہار کا کہنا ہے کہ ان آلات پر مٹی کے برتنوں کا استعمال کرنا ذرا مشکل ہے کیونکہ سخت تمازت سے ان کے ٹوٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔ ان کے مطابق تاہم کمہاروں کے پاس اس کا حل موجود ہے۔ جب وہ مٹی میں کچھ ریت ملاکر اس سے برتن بناتے ہیں تو ایسے برتنوں کے ٹوٹنے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ کمہار کو خوشی ہے کہ حکومت کی طرف سے قائم کئے گئے اس عارضی گاؤں کو دیکھنے کیلئے لوگ آرہے ہیں اور وہ ان کے آبائی کام کو بھی دیکھنے کیلئے اپنا وقت نکال رہے ہیں۔ انہیں اس وقت خوشی دوچند ہوجاتی ہے جب بچے بچیاں ان کے ساتھ سیلفیاں لیتے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.