نئی دہلی: ہلدوانی میں پولس ایکشن کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کا جو نمائندہ وفد متاثرہ علاقوں کا جائزہ لینے کے لئے آج ہلدوانی کے دورہ پر گیا تھا، اس نے جو رپورٹ دی ہے وہ انتہائی روح فرساں ہے اور یہ بات بالکل آئینہ کی طرح صاف ہو کر سامنے آگئی ہے کہ پولس اور انتظامیہ کا رول بہت خراب رہاہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس ظلم و زیادتی کی تمام حدوں کو توڑتے ہوئے لوگوں کو گرفتار کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ دروازہ توڑ کر اور جبرا گھروں میں گھس کر مرد و خواتین کو زد و کوب بھی کر رہی ہے۔ پولس کی زیادتی اور خوف کی وجہ سے اب تک ہزاروں لوگ فساد زدہ علاقے سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ یہ ظلم کی انتہا ہے اور کوئی بھی انصاف پسند معاشرہ اس کو برداشت نہیں کر سکتا۔
ہم نے اس سلسلے میں اتراکھنڈ کے ڈی جی پی کو کل ایک خط لکھ کر مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں فوری توجہ دیں اور پولیس بے گناہ شہریوں پر جو زیادتیاں کر رہی ہے، اسے ایسا کرنے سے نہ صرف روکا جائے بلکہ گرفتاریوں کا جو مذموم سلسلہ شروع ہوا ہے، اسے بھی فورا بند کیا جانا چاہئے اور اس پورے واقعے کی منصفانہ جانچ بھی ہونی چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پولس اور انتظامیہ نے اگر ایماندارانہ طریقہ سے اس معاملہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہوتی تو شاید اس سانحہ کو رونما ہونے سے روکا جا سکتا تھا، لیکن ایسا کرنے کی جگہ پولس نے طاقت کے استعمال کو ترجیح دی، جس سے صورتحال مزید بگڑ گئی اور پانچ بے گناہ افراد کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ جب معاملہ عدالت میں تھا تو انتظامیہ کو مسجد اور مدرسے کو منہدم کرنے کی اتنی جلدی کیوں تھی؟ میری معلومات کے مطابق اس کیس کی سماعت 8 فروری کو ہائی کورٹ میں گیارہ بجے ہوئی تھی اور کورٹ نے 14فروری کو اس کی دوبارہ سماعت کی تاریخ مقرر کی تھی۔
انتظامیہ کو جب تک انتظار کرنا چاہئے تھا، لیکن اسی دن یعنی 8 فروری کو شام تقریبا پانچ بجے مسجد اور مدرسہ کو منہدم کرنے کے لئے نگر نگم اور انتظامیہ کے لوگ پہنچ گئے اور عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سے یہ افسوسناک حقیقت بہر حال اجاگر ہوگئی کہ انتظامیہ کی نیت صاف نہیں تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں جو معلومات فراہم کی گئی ہے کہ یہ زمین 1937 میں برطانوی دور حکومت میں ایک شخص کو لیز پر دی گئی تھی، جس پر مسلمان آباد ہوئے اور مسجد اور مدرسہ بھی تعمیر کرلیا۔ انہوں نے کہا کہ پولس کاروائی پر اب یہ دلیل دی جارہی ہے کہ مقامی لوگ تشدد پر آمادہ تھے اور اپنے گھروں کی چھتوں سے سنگ باری کررہے تھے، جس پر قابو پانے کے لئے پولس کو فائرنگ کرنی پڑی۔