شملہ:ہماچل پردیش میں سنجولی مسجد کا تنازع اب زور پکڑتا جا رہا ہے۔ بدھ کو یہ معاملہ ہماچل پردیش کی اسمبلی میں بھی اٹھا۔ وہیں اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی نے بھی اس معاملے پر شدید رد عمل دیا ہے۔ مسجد تنازع پر اسد الدین اویسی نے کہا کہ "ہماچل کی بی جے پی کی حکومت ہے یا کانگریس کی؟ ہماچل کی "محبت کی دکان" میں نفرت ہی نفرت! اس ویڈیو میں ہماچل پردیش کے وزیر بی جے پی کی زبان میں بول رہے ہیں۔"
ہماچل مسجد کا پورا معاملہ یہ ہے
قابل ذکر ہے حال ہی میں شملہ ضلع کے سنجولی میں حال ہی میں کچھ نوجوانوں کے درمیان ہوئی لڑائی اب مسجد کے تنازع تک پہنچ گئی ہے۔ سنجولی کی ایک قدیم مسجد پر تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ یہاں دو فرقوں کے نوجوانوں کے درمیان لڑائی کے بعد ہندو تنظمیں اس مسجد کو منہدم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ہندو تنظیموں نے کا الزام ہے کہ یہ مسجد غیر قانونی طور پر بنائی گئی ہے۔
تاہم یہ مسجد 1947 سے پہلے کی ہے۔ مسجد کے امام کا کہنا ہے کہ یہ مسجد 1947 سے پہلے کی ہے اور یہ وقف بورڈ کی مسجد ہے۔ ہندو تنظیموں کے بعض کارکنان کے مطابق اس کی دو منزلیں بغیر اجازت کے بنائی گئی ہیں جب کہ کچھ تنظیمیں پوری مسجد کو ہی غیر قانونی بتانے پر تلی ہیں۔ اس پورے معاملے کو لے کر سنجولی میں ماحول کافی کشیدہ ہے۔ ہندو تنظیمیں مسجد میں نئی تعمیر کی آڑ میں پوری مسجد کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے توڑنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شملہ میں ہندو تنظیمیں مسجد کی تعمیر کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔
کانگریس کے کابینہ وزیر نے مسجد کو منہدم کرنے کی حمایت کرتے ہوئے اس مسئلے کو ایوان اسمبلی میں اٹھایا۔ اس سے قبل چار دن پہلے ہندو تنظیموں نے ایک ریلی نکالی، جس میں شملہ میونسپل کارپوریشن کے تین کانگریسی کونسلرز بھی شامل ہوئے اور مسجد کے باہر احتجاج کیا۔ اس دوران شہر میں یوپی سہارنپور کے لوگوں کی دکانیں بھی بند رہیں۔