نئی دہلی: مسلمانوں کے شدید احتجاج کے دوران وقف (ترمیمی) بل 2024 پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) کی پہلی میٹنگ آج ہو رہی ہے۔ یہ میٹنگ 22 اگست کو پارلیمنٹ ہاؤس انیکسی میں ہوگی۔ اس کمیٹی کی سربراہ بی جے پی لیڈر جگدمبیکا پال کررہے ہیں۔ وہیں وقف ترمیمی بل 2024 پر شدید ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علمائے ہند مشترکہ طور پر آج سہ پہر پریس کانفرنس کر رہی ہے۔ جی پی سی کی میٹنگ کے دوران وزارت اقلیتی امور کے نمائندوں کو بل اور بل میں مجوزہ ترامیم کے بارے میں بریفنگ دی جائے گی۔ اس دوران وزارت قانون کے نمائندے بھی موجود ہوں گے۔
اسی تناظر میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علمائے ہند کی بھی مشترکہ طور پر آج ہی پریس کانفرنس منعقد کی جا رہی ہے (ETV Bharat Urdu) آپ کو بتا دیں کہ بل کی جانچ کرنے والی پارلیمانی کمیٹی میں لوک سبھا سے 21 اور راجیہ سبھا سے 10 ممبران ہیں۔ یاد رہے کہ حکومت نے یہ بل اس ماہ کے شروع میں ختم ہونے والے پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس میں پیش کیا تھا اور اس بل کو مزید جانچ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی یعنی جے پی سی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وقف (ترمیمی) بل، 2024 میں وقف ایکٹ، 1995 کا نام بدل کر انٹیگریٹڈ وقف مینجمنٹ، امپاورمنٹ، ایفیشنسی اینڈ ڈیولپمنٹ ایکٹ، 1995 رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور جمعیۃ علمائے ہند کے وفود نے مذکورہ کمیٹی کے اراکین سے ملاقاتیں کرکے مجوزہ بل میں موجود غلط اور نقصاندہ ترمیمات کی نشاندہی کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ اس سلسلے میں وہ کئی سیاسی لیڈران سے ملاقات کرچکے ہیں۔
وقف ترمیمی بل 2024 پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کی پہلی میٹنگ آج (ETV Bharat Urdu) جمیعت علمائے ہند کے وفد کا کہنا ہے کہ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے بہت سے اراکین کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وقف کیا ہوتا ہے اور اس کے مذہبی مطالب کیا ہیں۔ ان سے ملاقات کرنے والے وفود انہیں تفصیلات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے وقف ترمیمی بل کے بارے میں ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ وقف کے تعلق سے حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ترمیم کے نام پر جو نیا بل لایا گیا ہے اس کا مقصد وقف املاک کا تحفظ نہیں بلکہ مسلمانوں کو اس عظیم ورثہ سے محروم کردینے کی سازش ہے جو ہمارے اسلاف، ملت کے غریب، نادار اور ضرورتمند افراد کی فلاح وبہبود کے لیے چھوڑ گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے اس بل کو مذہبی امور میں صریح مداخلت اور بڑی سازش قرار دیا ہے۔