- بیان القرآن (مولانا محمد اشرف علی تھانوی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ثُمَّ بَعَثۡنَٰكُم مِّنۢ بَعۡدِ مَوۡتِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (56)
ترجمہ: پھر ہم نے تم کو زندہ کر اٹھایا تمہارے مرجانے کے بعد اس توقع پر کہ تم احسان مانو گے۔
وَظَلَّلۡنَا عَلَيۡكُمُ ٱلۡغَمَامَ وَأَنزَلۡنَا عَلَيۡكُمُ ٱلۡمَنَّ وَٱلسَّلۡوَىٰۖ كُلُواْ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقۡنَٰكُمۡۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمۡ يَظۡلِمُونَ (57)
ترجمہ: اور سایہ فگن کیا ہم نے تمپر ابر کو (میدان تیہ میں) اور ( خزانہ غیب سے) پہونچایا ہم نے تمہارے پاس ترنجبین اور بٹیریں۔ کھاؤ نفیس چیزوں سے جو کہ ہم نے تم کو دی ہیں اور (اس سے انہوں نے ہمارا کوئی نقصان نہیں کیا لیکن اپنا ہی نقصان (5) کرتے تھے۔
5- یہ دونوں قصے وادی تیہ میں ہوئے، تیہ کے معنی ہیں سر گردانی
وَإِذۡ قُلۡنَا ٱدۡخُلُواْ هَٰذِهِ ٱلۡقَرۡيَةَ فَكُلُواْ مِنۡهَا حَيۡثُ شِئۡتُمۡ رَغَدٗا وَٱدۡخُلُواْ ٱلۡبَابَ سُجَّدٗا وَقُولُواْ حِطَّةٞ نَّغۡفِرۡ لَكُمۡ خَطَٰيَٰكُمۡۚ وَسَنَزِيدُ ٱلۡمُحۡسِنِينَ (58)
ترجمہ: اور جب ہم نے حکم دیا کہ تم لوگ اس آبادی کے اندر داخل ہو پھر کھاؤ اس کی چیزوں میں) سے جس جگہ تم رغبت کرو بے تکلفی سے اور دروازے میں داخل ہونا (عاجزی سے) جھکے جھکے اور (زبان سے) کہتے جانا کہ توبہ ہے (توبہ ہے) ہم معاف کر دیں گے تمہاری خطائیں اور ابھی مزید براں اور دیں گے دل سے نیک کام کرنے والوں کو۔ (58)
فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوۡلًا غَيۡرَ ٱلَّذِي قِيلَ لَهُمۡ فَأَنزَلۡنَا عَلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجۡزٗا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفۡسُقُونَ (59)
ترجمہ: سو بدل ڈالا ان ظالموں نے ایک اور کلمہ جو خلاف تھا اس کلمہ کے جس کے کہنے) کی ان سے فرمائش کی گئی تھی اس پر ہم نے نازل کی ان ظالموں پر ایک آفت سماوی اس وجہ سے کہ وہ عدول حکمی کرتے تھے۔ (6)
( 6 ) وہ کلمہ خلاف یہ تھا کہ حطة بمعنی توبہ کی جگہ براہ تمسخر حبة في شعيرة بمعنى غله درمیان جو کے کہنا شروع کیا اور وہ آفت سماوی طاعون تھا۔
وَإِذِ ٱسۡتَسۡقَىٰ مُوسَىٰ لِقَوۡمِهِۦ فَقُلۡنَا ٱضۡرِب بِّعَصَاكَ ٱلۡحَجَرَۖ فَٱنفَجَرَتۡ مِنۡهُ ٱثۡنَتَا عَشۡرَةَ عَيۡنٗاۖ قَدۡ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٖ مَّشۡرَبَهُمۡۖ كُلُواْ وَٱشۡرَبُواْ مِن رِّزۡقِ ٱللَّهِ وَلَا تَعۡثَوۡاْ فِي ٱلۡأَرۡضِ مُفۡسِدِينَ (60)
ترجمہ: اور (وہ زمانہ یاد کرو) جب (حضرت) موسیٰ نے پانی کی دعا مانگی اپنی قوم کے واسطے اس پر ہم نے ( موسیٰ (علیہ السلام) کو) حکم دیا کے اپنے اس عصا کو فلاں پتھر پر مارو پس فورا اس سے پھوٹ نکلے بارہ چشمے ( اور بارہ ہی خاندان تھے نبی اسرائیل کے چنانچہ) معلوم کر لیا ہر ہر شخص نے اپنے پانی پینے کا موقع کھاؤ اور پینے کو) پیو اللہ تعالیٰ کے رزق سے اور حد (اعتدال) سے مت نکلو فساد (وفتنہ) کرتے ہوئے سرزمین میں۔ (1)
1- یہ قصہ وادی تیہ میں ہوا وہاں پیاس لگی تو پانی مانگا موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو ایک خاص پتھر سے صرف عصا مارنے سے اس میں بارہ چشمے بقدرت خداوندی نکل پڑے۔ اور کھانے وے مراد من و سلوی کا کھانا ہے اور پینے سے یہی پانی پینا ہے اور فساد وفتنہ فرمایا نافرمانی اور ترک احکام۔
- تفہیم القرآن (مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
بِسْمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحْمَـٰنِ ٱلرَّحِيمِ
ثُمَّ بَعَثۡنَٰكُم مِّنۢ بَعۡدِ مَوۡتِكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُونَ (56)
71- یہ اشارہ جس واقعہ کی طرف ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ چالیس شبانہ روز کی قرارداد پر جب حضرت موسیٰ (ع) طور پر تشریف لے گئے تھے، تو آپ (ع) کو حکم ہوا تھا کہ اپنے ساتھ بنی اسرائیل کے ستر نمائندے بھی لے کر آئیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (۲) کو کتاب اور فرقان عطا کی، تو آپ نے اسے ان نمائندوں کے سامنے پیش کیا۔ اس موقع پر قرآن کہتا ہے کہ ان میں سے بعض شریر کہنے لگے کہ ہم محض تمہارے بیان پر کیسے مان لیں کہ خدا تم سے ہم کلام ہوا ہے۔ اس پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہوا اور انہیں سزا دی گئی۔ لیکن بائکیل کہتی ہے کہ
انہوں نے اسرائیل کے خدا کو دیکھا۔ اس کے پاؤں کے نیچے نیلم کے پتھر کا چبوترا تھا، جو آسمان کی مانند شفاف تھا۔ اور اس نے بنی اسرائیل کے شرفا پر اپنا ہاتھ نہ بڑھایا۔ سو انہوں نے خدا کو دیکھا اور کھایا اور پیا۔ “ (خروج، باب ٢٤ ۔ آیت ۱۱ - ۱۰ ) لطف یہ ہے کہ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (ع) نے خدا سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جلال دکھا دے، تو اس نے فرمایا کہ تو مجھے نہیں دیکھ سکتا۔ ( دیکھو خروج، باب ۳۳ - آیت ۲۳ - ۱۸ )
وَظَلَّلۡنَا عَلَيۡكُمُ ٱلۡغَمَامَ وَأَنزَلۡنَا عَلَيۡكُمُ ٱلۡمَنَّ وَٱلسَّلۡوَىٰۖ كُلُواْ مِن طَيِّبَٰتِ مَا رَزَقۡنَٰكُمۡۚ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمۡ يَظۡلِمُونَ (57)
ترجمہ: ہم نے تم پر اکابر کا سایہ کیا 72 ، من وسلویٰ کی غذا تمہارے لیے فراہم کی 73 اور تم سے کہا کہ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اُنھیں کھاؤ، مگر تمہارے اسلاف نے جو کچھ کیا ، وہ ہم پر ظلم نہ تھا، بلکہ انہوں نے آپ اپنے ہی اوپر ظلم کیا
72- یعنی جزیرہ نمائے سینا میں جہاں دھوپ سے بچنے کے لیے کوئی جائے پناہ تمہیں میسر نہ تھی، ہم نے ابر سے تمہارے بچاؤ کا انتظام کیا۔ اس موقع پر خیال رہے کہ بنی اسرائیل لاکھوں کی تعداد میں مصر سے نکل کر آئے تھے اور سینا کے علاقے میں مکانات کا تو کیا ذکر، سر چھپانے کے لیے ان کے پاس خیمے تک نہ تھے۔ اس زمانے میں اگر خدا کی طرف سے ایک مدت تک آسمان کو ابر آلود نہ رکھا جاتا، تو یہ قوم دھوپ سے ہلاک ہو جاتی۔
73- من و سلوی وہ قدرتی غذائیں تھیں، جو اس مہاجرت کے زمانے میں ان لوگوں کو چالیس برس تک مسلسل ملتی رہیں۔ من دھنیے کے بیج جیسی ایک چیز تھی، جو اوس کی طرح گرتی اور زمین پر جم جاتی تھی۔ اور سلوبی بٹیر کی قسم کے پرندے تھے۔ خدا کے فضل سے ان کی اتنی کثرت تھی کہ ایک پوری کی پوری قوم محض انہی غذاؤں پر زندگی بسر کرتی رہی اور اسے فاقہ کشی کی مصیبت نہ اٹھانی پڑی، حالانکہ آج کسی نہایت متمدن ملک میں بھی اگر چند لاکھ مہاجر یکایک آپڑیں، تو ان کی خوراک کا انتظام مشکل ہو جاتا ہے۔ ( من اور سلوی کی تفصیلی کیفیت کے لیے ملاحظہ ہو بائبل، کتاب خروج، باب 16 - گفتی، باب 11، آیت 9 - 7 و 32 - 31 و یشوع، باب 5 - آیت 13)