لکھنؤ: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ایک مسلم شادی شدہ مرد کے لیو ان ریلیشن شپ سے متعلق ایک اہم فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلام میں یقین رکھنے والے شخص کو اس کی بیوی کے زندہ رہتے ہوئے لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ عدالت نے کہا کہ اسلامی عقیدہ کسی مسلمان کو دوسری عورت کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کی اجازت نہیں دیتا جبکہ اس کا نکاح برقرار ہے۔
جسٹس اے آر مسعودی اور جسٹس اجے کمار سریواستو I کی بنچ نے یہ حکم درخواست گزاروں، ایک ہندو لڑکی اور ایک شادی شدہ مسلمان شخص شاداب خان کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کے دوران دیا، جس میں انہوں نے نہ صرف اُن کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا بلکہ لیو اِن ریلیشن شپ میں رہتے ہوئے سیکیورٹی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ رسم و رواج بھی قانون کے مساوی ذرائع ہیں اور آئین کا آرٹیکل 21 ایسے رشتے کے حق کو تسلیم نہیں کرتا جس پر رسم و رواج کی پابندی ہو۔ ان تبصروں کے ساتھ، عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ لڑکی کو تحفظ کے ساتھ اس کے والدین کو واپس کیا جائے۔ درخواست گزاروں نے کہا کہ وہ بالغ ہیں اور اپنی مرضی سے لیو ان ریلیشن شپ میں رہ رہے ہیں۔ لڑکی کے بھائی نے اغوا کا الزام لگاتے ہوئے بہرائچ کے وشور گنج پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ درخواست میں مذکورہ ایف آئی آر کو چیلنج کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ درخواست گزاروں کی پرامن زندگی میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
سماعت کے دوران عدالت کے روبرو یہ بات سامنے آئی کہ شاداب نے 2020 میں فریدہ خاتون سے شادی کی جس سے ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ فریدہ فی الحال ممبئی میں اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ اس حقیقت کا سامنا کرنے پر، عدالت نے کہا کہ موجودہ پٹیشن کے ذریعے درخواست گزار اپنے لیو ان ریلیشن شپ کو قانونی حیثیت دینا چاہتے ہیں، جب کہ درخواست گزار شاداب جس مذہب سے تعلق رکھتا ہے، اس میں ایک نکاح برقرار رکھتے ہوئے دوسرے کے ساتھ لیو ان ریلیشن شپ کی اجازت نہیں ہے۔