ڈاکٹر سمترا بچانی کا کہنا ہے کہ جو حاملہ خواتین بلڈ پریشر، ذیابیطیس، نظام تنفس کی بیماری، دمہ، سسٹک فائبروسس، ہوموزائیگس سیکل سیل بیماری، کمزور مدافعاتی نظام، گردوں کی دائمی بیماری، دل کی بیماری جیسے سنگین جسمانی حالات سے دوچار ہیں ان میں کووڈ 19 کا سخت خطرہ لاحق ہے۔ ساتھ میں ان خواتین میں بھی کورونا کا خطرہ زیادہ ہے، جنہوں نے اپنے اعضاء کی پیوندکاری(آرگن ٹرانسپلانٹ) کرائی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جن حاملہ خواتین میں کورونا کی علامات نظر آتے ہیں، ان میں حمل کے دیگر منفی نتائج کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں حاملہ خواتین کو آئی سی یو میں داخل کروانا، حمل کے 37 ہفتے پورے ہونے سے قبل بچے کی پیدائش(آئٹروجنک پری ٹرم پیدائش)، حمل سے وابستہ ہائی بلڈ پریشر جیسے مصائب کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور کبھی کبھی ایسے معاملات میں موت ہونے کا خدشہ بھی بنا رہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ اگر حمل کے آخری تین مہینوں کے دوران اگر حاملہ خواتین کووڈ انفیکشن کا شکار ہوجاتی ہے تو ان میں کووڈ کے پیچیدگیوں کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل کے دوران پیٹ میں بچے کی افزائش کے عمل کی وجہ سے ماں کے پھیپھڑوں اور حرکت قلب پر دباؤ بڑھتا ہے اور اس سے ماں کے لیے آکسیجن کی سطح کو برقرار رکھنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ جس سے سانس لینے میں دشواری پیدا ہوتی ہے۔
رائل کالج آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکالوجسٹس، رائل کالج آف مڈ وائفس اینڈ رائل کالج آف پیڈیاٹرکس اینڈ چائلڈ ہیلتھ کی طرف سے 'کورونا وائرس انفیکشن این پریگنینسی۔گائیڈنس فار ہیلتھ کئیر پروفیشنل' نام سے شائع ہوئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عام آبادی کے مقابلے میں حاملہ خواتین میں کورونا متاثر ہونے کا امکان کم یا زیادہ نہیں ہوتا ہے اور دو تہائی سے زیادہ حاملہ خواتین میں کوئی علامات نظر نہیں آتی ہے۔حاملہ خواتین میں کووڈ 19 کی سب سے عام علامات کھانسی اور بخار ہے۔ وہیں اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ حاملہ خواتین کو متاثر ہونے کی صورت میں غیر حاملہ خواتین کے مقابلے میں کووڈ - 19 سے شدید متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور اگر حمل کے آخری تین مہینوں میں یہ متاثر ہوتی ہیں تو یہ وائرس زیادہ شدت اختیار کرسکتے ہیں۔حالانکہ موت ہونے کا خطرہ بہت کم رہتا ہے۔
کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا خدشہ ان میں زیادہ ہوتا ہے، جن کا تعلق پسماندہ طبقات سے ہوتا ہے۔لیکن ان حاملہ خواتین میں بھی اس سے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جن کا باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) 25 کلوگرام سے زیادہ، ہوتا ہے یا حمل سے پہلے ان میں ذیابطیس اور بلڈیپشر ہوتا ہے۔اس کے علاوہ زچگی کی عمر 35 سال یا اس سے زیادہ ہونا، سماجی و معاشی محرومی کی شکار اور طبی شعبہ سے جڑی خواتین میں کورونا کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
کووڈ 19 انفیکشن کی وجہ سے پیدائشی نقص کے واقعات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔حالانکہ کووڈ سے متاثر ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران بچہ کی مردہ حالت میں پیدا ہونے کے خدشات دوگنا بڑھ گئے ہیں۔
ماں سے بچے میں انفیکشن کی منتقلی کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ابھی بھی اس پر تحقیق کی جارہی ہے۔ہم نے جو مشاہدہ کیا ہے کہ اس میں پایا ہے کہ انفیکشن کا جنین یا نوزائیدہ بچے پر زیادہ اثر نہیں پڑتا ہے، تاہم متعدد معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بچوں کی پیدائش قبل از وقت کر دی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاہم ، زچہ اور بچہ کو ایک ہی کمرے میں رکھا جاسکتا ہے، جبکہ ماں میں کووڈ کے علامات زیادہ نہ ہوں۔ لیکن دوران اس بات کو یقینی بنائیں کہ کمرہ اچھی طرح سے ہوادار ہے اور خاندان میں کوئی ایسا فرد ہو جو کووڈ متاثر نہ ہو اور بچے کی دیکھ بھال کرسکے۔ماں کو ماسک پہننا چاہیے اور بچے سے 6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ تاہم ، وہ بچے کو دودھ پلا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں:بچوں میں لانگ کووڈ کے امکانات کم ہوتے ہیں: تحقیق
حاملہ خواتین اور جوان ماؤں کو کووڈ ویکسین لینے کے بارے میں پوچھے جانے پر بچانی نے مزید کہا کہ انہیں ویکسین ضرور لینی چاہیے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسینیشن کے فوائد کووڈ 19 سے وابستہ خطرات سے کہیں زیادہ ہیں۔ خاص طور پر اگر آپ حمل کے دوران متاثر ہوتی ہیں تو۔ اس کے علاوہ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ ویکسین حاصل کرنے والی ماؤں میں اینٹی باڈیز تیار ہونا شروع ہوجاتا ہے، جسے وہ اپنے بچے میں خون اور دودھ پلانے کے ذریعہ منتقل کرتی ہیں۔
تاہم ، انہوں نے مزید کہا کہ عام آبادی کی طرح ان حاملہ خواتین کو بھی ویکسین لینے سے گریز کرنا چاہیے جنہیں کووڈ 19 کے پچھلے ڈوز یا دیگر کسی ویکسین سے الرجی ہوئی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ جن حاملہ خواتین میں حال ہی میں کووڈ 19 کی تصدیق ہوئی ہے، انہیں کووڈ 19 سے صحت یاب ہونے کے 4 سے 8 ہفتوں کے بعد ویکسین لینا چاہیے۔