اس سال عالمی یوم صحت کی توجہ 'ایک بہتر صحت مند دنیا کی تعمیر' پر مرکوز ہوگی۔ عالمی یوم صحت ہر سال پوری دنیا میں 7 اپریل کو منایا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ اس عالمی یوم صحت کے موقع پر ہم ایک سال تک جاری رہنے والی عالمی مہم کی شروعات کریں گے، جس میں ہم صحت سے متعلق عدم مساوات کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ لوگوں کو ایک بہتر اور صحت مند دنیا کی تعمیر کے لیے متحد کیا جاسکے۔ اس مہم میں ڈبلیو ایچ او کے آئینی اصول پر روشنی ڈالی جائے گی کہ نسل، مذہب، سیاسی اعتقاد، معاشی یا معاشرتی حالات سے بالاتر ہوکر ہر انسان کو صحت کے اعلی ترین خدمات حاصل کرنے کا حق ہے، جو انسان کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے۔
عالمی یوم صحت کی تاریخ
دسمبر 1945 میں برازیل اور چین نے ایک ہمہ گیر اور آزاد بین الاقوامی صحت تنظیم کے قیام کی تجویز پیش کی۔ اس کے بعد جولائی 1946 میں نیویارک میں اس تجویز کو منظور کیا گیا اور 7 اپریل 1948 کو 61 ممالک نے این جی او کے قیام کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیا۔
یہ دن سب سے پہلے سال 1949 میں 22 جولائی کو منایا گیا تھا، لیکن بعد میں اس تاریخ کو بدل کر 7 اپریل کردیا گیا تھا، ٹھیک اسی دن جس دن ڈبلیو ایچ او کو سرکاری طور پر قائم کیا گیا تھا لہذا سنہ 1950 کو اس دن کو پہلی بار سرکاری طور پر منایا گیا تھا۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ، "عالمی یوم صحت کا مقصد ایک مخصوص صحت کے موضوع کے بارے میں عالمی سطح پر شعور اجاگر کرنا ہے۔"
ڈبلیو ایچ او کے تازہ ترین اعدادوشمار
- ان 20 برسوں میں پہلی بار عالمی سطح پر غربت میں اضافہ اور پائیدار ترقیاتی اہداف میں رکاوٹ پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
- کچھ ممالک میں 60 فیصد سے زائد لوگ صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔
- کچی آبادیوں میں رہنے والے 1 بلین سے زائد افراد کورونا وائرس کے انفیکشن اور ٹرانسمیشن کا خطرہ ہے۔
عالمی یوم صحت اور کورونا کا بڑھتا عذاب
ملک ابھی بھی کووڈ 19 وبائی مرض سے دوچار ہے، آج عالمی یوم صحت کے موقع پر ای ٹی وی بھارت کی سکھی بھوا کی ٹیم نے بھارت میں کورونا وائرس کے نئے اسٹرین اور اس کے بڑھتے معاملات کے حوالے سے کچھ ڈاکٹروں سے خصوصی بات چیت کی ہے۔
COVID-19 کی "دوسری لہر" کی شدت کے بارے میں اندور کے ایپل اسپتال سے ایم بی بی ایس، ایم ڈی (میڈیسین) ڈاکٹر سنجے کے جین کہتے ہیں کہ چونکہ کووڈ 19 ایک وائرل انفیکشن ہے، وائرس میں ہمیشہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ساخت میں تبدیلی آتی جائیگی۔ ناول کورونا وائرس کی ساخت میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وائرس بدل رہا ہے۔ تبدیل شدہ ڈھانچے کے ساتھ جس طرح سے وائرس متاثر کر رہاہے ، اسی طرح وہ بدل بھی رہا ہے۔وائرس اب زیادہ تیزی کے ساتھ لوگوں کو متاثر کر رہا ہے اور اب لوگوں میں جسمانی درد، گلے کی سوزش، سردی اور خشک کھانسی جیسے شدید علامات نظر آرہے ہیں۔ان علامات کے برعکس ایک اور چیز جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہے لوگوں میں کورونا مثبت پایا جارہا ہے لیکن ان میں کورونا کے علامات نظر نہیں آرہے ہیں۔ جو زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اگر وہ وقت پر خود کو الگ تھلگ نہیں کرتے ہیں تو وہ وائرس کے کیرئیر بن سکتے ہیں۔لیکن اس کے برعکس دیکھا جائے تو اموات کی شرح کم ہیں۔شاید اس لیے کیونکہ لوگ فوری طور پر اپنی جانچ اور علاج کروا رہے ہیں۔
سینئر آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر ہیم جوشی نے بھی اس حالت کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جو افراد ایک سے زائد مرض میں مبتلا ہے ان کے لیے ابھی زیادہ خطرہ لاحق ہے۔تاہم اگر کسی شخص کی حالت سنگین نہیں ہے تو وہ گھر میں الگ تھلگ رہ کر ڈاکٹر کے ذریعہ دی گئی دوائیں باقاعدگی سے لیں اور تمام ہدایات پر عمل کرنے سے وہ اپنی حالت کو سنبھال سکتےہیں اور دوسروں کو متاثر ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
ماہر امراض اطفال ڈاکٹر سونالی ناولے پورندے سے بھی یہی بات پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ کووڈ 19 وبائی مرض کے ابتدائی مراحل کے دوران یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ وائرس بچوں پر زیادہ اثرات مرتب نہیں کرتا کیونکہ کورونا کے خلاف ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہے۔تاہم ہمارے ملک میں شروع ہونے والی نئی لہر کے ساتھ بچوں میں بھی ناول کورونا وائرس کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ وائرس کی بدلتی ساخت ہر عمر کے بچوں کو متاثر کر رہا ہے، یہ 2 سے 3 ماہ کے بچوں پر بھی اتنا ہی اثر اندوز ہے۔ ان میں پائے جانے والے علامات بہت مختلف نہیں ہیں، عام طور پر کھانسی ، نزلہ اور بخار ہے۔
اسی دوران ایک اور ماہر امراض اطفال ڈاکٹر لتیکا جوشی کا کہنا ہے کہ اگر بچوں میں پائے جانے والے علامات کو وقت پر نہیں دیکھا گیا تو وہ خاندان میں وائرس کے کیریئر بن سکتے ہیں۔ لہذا یہاں تک کہ اگر آپ کے بچے میں ہلکی سی علامات پائی جارہی ہیں تو آپ فوری طور پر ان کی جانچ کروائیں اور طبی مشورہ لیں۔
دہرادون میں مقیم سینئر ماہر نفسیات ڈاکٹر وینا کرشنن کورونا وائرس کی نئی لہر کے دور میں ذہنی صحت پر گفتگو کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ابھی لوگوں کی ذہنی صحت بہت زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ جب اس سال کے شروع میں معاملات میں کمی آنا شروع ہوئی تھی یا ویکسینیشن مہم شروع ہوئی تھی تب لوگوں کو بہت امید تھی کہ ان کی زندگی واپس معمول پر آرہی ہے۔لیکن اچانک سے پورے ملک میں بڑھتے معاملات نے لوگوں کو پچھلی بارکے مقابلے میں زیادہ ذہنی دباؤ، افسردگی اور اضطراب میں مبتلا کردیا ہے۔وہ بے بس اور برباد محسوس کررہے ہیں۔ اگرچہ ذہنی حالات میں مبتلا افراد میں اس طرح کے معاملات نظر نہیں آتے ہیں، لیکن بے چینی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ پھر سے پہلےجیسے حالات پیدا ہور ہے ہیں۔
لہذا کووڈ 19 کی نئی لہر کے درمیان یہ یاد رکھیں کہ ہمیں کسی بھی قیمت پر اپنی صحت سے سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ صحت مند اور غذائیت سے بھرپور کھانا کھائیں اور باقاعدگی سے ورزش کریں تاکہ آپ کی مدافعتی نظام مضبوط رہے، تاکہ آپ کے جسم پر وائرس کا شدید اثر نہ پڑے۔ اس کے علاوہ اپنی ذہنی صحت کو بھی تندرست رکھنا ضروری ہے۔زیادہ خبریں پڑھنے یا دیکھنے سے گریز کریں، جس سے آپ کی دماغی حالت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔اس کے علاوہ ویکسین سے متعلق غلط معلومات دینے والے لوگوں سے بچیں۔
کووڈ 19 نے پوری دنیا کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے ، لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر پسماندہ اور معاشی طور پر کمزور طبقوں پر پڑا ہے، جو وقت پر طبی ضروریات کے حصول سے قاصر ہیں۔ لہذا، جیسا کہ اس دن کا مرکزی خیال ہے کہ ہمیں مل کر صحت کے عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے کام کرنا چاہئے اور معاشرتی اور مالی حالت سے بالاتر ہوکر ہمیں ہر انسان تک صحت کی مناسب اور بروقت خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔