ETV Bharat / sukhibhava

Asthma Disease in India: دمہ کے مریض بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں - ہندوستان میں دمہ کی بیماری

ڈاکٹر سمیر کمار سولنکی بتاتے ہیں کہ اگرچہ دمہ کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے لیکن بیماری کا صحیح وقت پر پتہ چل جائے اور انسان صحیح وقت پر علاج شروع کر دے تو دمہ پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے اور دمہ کے مریض بھی آسان زندگی گزار سکتے ہیں۔ Asthma patients can lead a normal life

دمہ کے مریض بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں
دمہ کے مریض بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں
author img

By

Published : Sep 13, 2022, 12:54 PM IST

ہم کئی بار بچوں یا بوڑھوں میں دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد انہیں سانس لینے میں دشواریاں ہونے لگتی ہیں۔ یا ان کی سانسیں چھوٹی ہونے لگتی ہے۔ یا کئی بار بہت زیادہ کھانسی بھی آنے لگتی ہیں۔ بعض اوقات میں ایسی حالت کے لیے استھما ذمہ دار ہوتا ہے۔ جو ایک سانس کی بیماری ہوتی ہے۔ Asthma patients can lead a normal life

استھما کو لیکر لوگوں میں کئی طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد نارمل زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ وہ ہمیشہ بیمار رہتا ہے۔ حالانکہ مناسب علاج اور صحت مند طرز زندگی پر عمل کرکے اس بیماری کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے اور مریض کافی حد تک نارمل زندگی گزار سکتا ہیں۔

استھما کیا ہے: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں تقریباً استھما کے 20 ملین مریض موجود ہیں۔ اس میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ممبئی میں ناک، کان اور گلے کے ماہر ڈاکٹر سمیر کمار سولنکی بتاتے ہیں کہ 'استھما ایک بیماری ہے، جسے عام زبان میں دمہ یا سانس کی بیماری کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج کل مختلف وجوہات کے بنا پر ہر عمر کے افراد میں اس مرض کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف بڑوں میں ہی نہیں بلکہ بچوں میں بھی دمے کی کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ Asthma patients can lead a normal life

ڈاکٹر سمیر کمار سولنکی کے مطابق دمہ دراصل پھیپھڑوں سے متعلق ایک بیماری ہے جس میں سانس لینے کی نالی میں سوجن آجاتی ہے جس کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ اگر اس مسئلے کا علاج بروقت شروع نہ کیا جائے تو بیماری سنگین مسائل کا باعث بنتا ہے۔ یہاں تک کہ مریض کو دمہ کا دورہ پڑ سکتا ہے، جو بعض اوقات میں جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ دمہ کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے لیکن اگر اس مرض کا صحیح وقت پر پتہ چل جائے اور انسان بروقت علاج شروع کر دے تو دمہ پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

استھما کی علامات: ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ دمہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو 6 ماہ کے بچوں سے لیکر بوڑھے تک کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ دمہ ہونے کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔ جیسے صحت کا مسئلہ، الرجی، انفیکشن، موسمی بیماری اور آلودگی وغیرہ۔ ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ بچوں میں دمہ کی زیادہ تر کیسز کی علامات چھ ماہ کی عمر سے ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بہت کھانستے ہیں۔ زیادہ روتے ہیں، کیونکہ انہیں سانس لینے میں دشواری یا سینے کی جکڑن اور دیگر مسائل کے بارے میں بات نہیں کر پاتے۔ ایسی صورتحال میں والدین یا بچے کی دیکھ بھال کرنے والے شخص کو زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

وہیں دوسری جانب بالغ افراد جو دمہ کے شکار ہوتے ہیں انہیں چہل قدمی، کھیلنا یا دیگر سرگرمی کا حصہ بننے پر سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی بار بعض لوگوں میں کھانسی، سینے میں بھاری پن یا جکڑن کا احساس اور بہت تھکاوٹ یا کمزوری جیسی پریشانیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی بار موسم بدلنے کے بعد جانوروں کے قریب جانا یا کھیلنا، پینٹ یا مٹی کے تیل جیسی شدید خوشبو والی چیزوں کے رابطے میں آنا، بہت ٹھنڈا کھانا، پینا یا ایسے ماحول کا حصہ بننا۔ جس میں دھول، مٹی اور آلودگی ہوتی ہے۔ تو ایسے میں لوگوں کو سانس لینے کی بیماری یا دیگر متعلقہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ Asthma Disease in India

دمہ کیوں ہوتا ہے: ڈاکٹر سمیر کمار سولنکی، بتاتے ہیں کہ کئی بار استھما کے لیے بعض جسمانی حالات اور ماحولیاتی عوامل بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی بچے کے والدین کو دمہ ہے، تو بچے کو اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ مسئلہ کسی جسمانی بیماری، جانوروں کے رابطے، الرجی، انفیکشن یا کسی دوا کے سائیڈ ایفیکٹ کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دمہ کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ آلودگی کو قرار دینا غلط نہیں ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ عمر، حالات اور مراحل کے لحاظ سے دمہ کا کئی اقسام ہوسکتا ہے۔ جن میں سے کچھ اس قسم کے ہیں۔

طبی مشاورت ضروری: ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ اگر متاثرہ شخص کو صحیح وقت پر بیماری کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائے اور صحیح وقت پر علاج شروع کر دیا جائے تو دمہ کے ساتھ بھی نارمل زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ لیکن علاج اور ادویات کے ساتھ ساتھ مریض کے لیے بہت سی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ دوسری صورت میں نہ صرف دمہ سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے، بلکہ دمہ کا دورہ بھی ہوسکتا ہے. جو بعض اوقات میں جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگر دمہ کا شکار شخص صحیح وقت پر ادویات لے اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرے اور صحت مند اور متوازن طرز زندگی اور خوراک پر عمل کرے تو اس مسئلے کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بعض اوقات میں متاثرہ شخص کو باقاعدگی سے ادویات لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم دمہ کے مریضوں کو عام طور پر ہر وقت انہیلر ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:

ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ دمہ کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح وقت پر صحت بخش اور متوازن خوراک لیں، نیند کے نظم و ضبط پر عمل کریں اور ایسی ورزشیں اپنائیں جو سانس لینے کی تکنیک اور صلاحیت کو بہتر بنائیں ساتھ ہی پھیپھڑوں کی صحت کو بھی مضبوط بنائیں۔ جیسے یوگا، مراقبہ، تیراکی استھما کے مریضوں کے لیے بہتر ورزش ہے۔ لیکن نریضوں کو مشاورت کے بغیر ورزش سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ چیزوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ کیونکہ تھوڑی سی لاپرواہی یا کوتاہی سنگین نتائج دے سکتے ہیں۔ یہی نہیں بعض اور خاص اوقات میں ان کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ asthma patients 20 million in India

جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

  • سانس لینے کے دوران گھرگھراہٹ کی آواز آنے پر۔
  • شدید کھانسی اور طویل سردی کے ہونے پر۔
  • سینے میں درد یا جکڑن محسوص ہونے پر۔
  • الرجی کے بار بار ہونے پر۔
  • سوتے وقت زیادہ بے چینی ہونے، سینے میں جکڑن محسوس ہونے، نیند میں دشواری یا سانس لینے میں دشواری ہونے پر۔
  • کسی دوا کے ریئیکشن ہونے پر

ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ ان علامات کے علاوہ بھی کچھ ایسی احتیاطی تدابیر بھی ہیں جن پر عمل کرکے دمہ کے اثر کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے جس سے دمہ کے مریض بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ جیسے گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں، موسم کی تبدیلی کے دوران اپنی خوراک اور اپنے معمولات کا خاص خیال رکھیں۔ اگر موسم کے کنجیکٹیول پیریڈ یا سردیوں کے موسم میں مسائل بڑھ جائیں تو پہلے سے ڈاکٹر سے رابطہ کریں، اس کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کریں، خاص طور پر انہیلر اور اس کی دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ دمہ کے مرض میں مبتلا افراد کو ٹھنڈے کھانے اور مشروبات، تمباکو نوشی، الکحل یا کسی بھی قسم کی نشہ آور اشیاء کے استعمال سے ہمیشہ دور رہنا چاہیے۔

ہم کئی بار بچوں یا بوڑھوں میں دیکھتے ہیں کہ تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے بعد انہیں سانس لینے میں دشواریاں ہونے لگتی ہیں۔ یا ان کی سانسیں چھوٹی ہونے لگتی ہے۔ یا کئی بار بہت زیادہ کھانسی بھی آنے لگتی ہیں۔ بعض اوقات میں ایسی حالت کے لیے استھما ذمہ دار ہوتا ہے۔ جو ایک سانس کی بیماری ہوتی ہے۔ Asthma patients can lead a normal life

استھما کو لیکر لوگوں میں کئی طرح کی غلط فہمیاں پائی جاتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد نارمل زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ وہ ہمیشہ بیمار رہتا ہے۔ حالانکہ مناسب علاج اور صحت مند طرز زندگی پر عمل کرکے اس بیماری کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے اور مریض کافی حد تک نارمل زندگی گزار سکتا ہیں۔

استھما کیا ہے: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بھارت میں تقریباً استھما کے 20 ملین مریض موجود ہیں۔ اس میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ممبئی میں ناک، کان اور گلے کے ماہر ڈاکٹر سمیر کمار سولنکی بتاتے ہیں کہ 'استھما ایک بیماری ہے، جسے عام زبان میں دمہ یا سانس کی بیماری کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ آج کل مختلف وجوہات کے بنا پر ہر عمر کے افراد میں اس مرض کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف بڑوں میں ہی نہیں بلکہ بچوں میں بھی دمے کی کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ Asthma patients can lead a normal life

ڈاکٹر سمیر کمار سولنکی کے مطابق دمہ دراصل پھیپھڑوں سے متعلق ایک بیماری ہے جس میں سانس لینے کی نالی میں سوجن آجاتی ہے جس کی وجہ سے مریض کو سانس لینے میں تکلیف ہونے لگتی ہے۔ اگر اس مسئلے کا علاج بروقت شروع نہ کیا جائے تو بیماری سنگین مسائل کا باعث بنتا ہے۔ یہاں تک کہ مریض کو دمہ کا دورہ پڑ سکتا ہے، جو بعض اوقات میں جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ حالانکہ دمہ کا کوئی مستقل علاج نہیں ہے لیکن اگر اس مرض کا صحیح وقت پر پتہ چل جائے اور انسان بروقت علاج شروع کر دے تو دمہ پر آسانی سے قابو پایا جا سکتا ہے۔

استھما کی علامات: ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ دمہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو 6 ماہ کے بچوں سے لیکر بوڑھے تک کسی کو بھی ہوسکتا ہے۔ دمہ ہونے کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔ جیسے صحت کا مسئلہ، الرجی، انفیکشن، موسمی بیماری اور آلودگی وغیرہ۔ ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ بچوں میں دمہ کی زیادہ تر کیسز کی علامات چھ ماہ کی عمر سے ہی ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ بہت کھانستے ہیں۔ زیادہ روتے ہیں، کیونکہ انہیں سانس لینے میں دشواری یا سینے کی جکڑن اور دیگر مسائل کے بارے میں بات نہیں کر پاتے۔ ایسی صورتحال میں والدین یا بچے کی دیکھ بھال کرنے والے شخص کو زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

وہیں دوسری جانب بالغ افراد جو دمہ کے شکار ہوتے ہیں انہیں چہل قدمی، کھیلنا یا دیگر سرگرمی کا حصہ بننے پر سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی بار بعض لوگوں میں کھانسی، سینے میں بھاری پن یا جکڑن کا احساس اور بہت تھکاوٹ یا کمزوری جیسی پریشانیاں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ کئی بار موسم بدلنے کے بعد جانوروں کے قریب جانا یا کھیلنا، پینٹ یا مٹی کے تیل جیسی شدید خوشبو والی چیزوں کے رابطے میں آنا، بہت ٹھنڈا کھانا، پینا یا ایسے ماحول کا حصہ بننا۔ جس میں دھول، مٹی اور آلودگی ہوتی ہے۔ تو ایسے میں لوگوں کو سانس لینے کی بیماری یا دیگر متعلقہ مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔ Asthma Disease in India

دمہ کیوں ہوتا ہے: ڈاکٹر سمیر کمار سولنکی، بتاتے ہیں کہ کئی بار استھما کے لیے بعض جسمانی حالات اور ماحولیاتی عوامل بھی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی بچے کے والدین کو دمہ ہے، تو بچے کو اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ مسئلہ کسی جسمانی بیماری، جانوروں کے رابطے، الرجی، انفیکشن یا کسی دوا کے سائیڈ ایفیکٹ کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دمہ کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ آلودگی کو قرار دینا غلط نہیں ہوگا۔ وہ بتاتے ہیں کہ عمر، حالات اور مراحل کے لحاظ سے دمہ کا کئی اقسام ہوسکتا ہے۔ جن میں سے کچھ اس قسم کے ہیں۔

طبی مشاورت ضروری: ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ اگر متاثرہ شخص کو صحیح وقت پر بیماری کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائے اور صحیح وقت پر علاج شروع کر دیا جائے تو دمہ کے ساتھ بھی نارمل زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ لیکن علاج اور ادویات کے ساتھ ساتھ مریض کے لیے بہت سی احتیاطی تدابیر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ دوسری صورت میں نہ صرف دمہ سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے، بلکہ دمہ کا دورہ بھی ہوسکتا ہے. جو بعض اوقات میں جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ اگر دمہ کا شکار شخص صحیح وقت پر ادویات لے اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کرے اور صحت مند اور متوازن طرز زندگی اور خوراک پر عمل کرے تو اس مسئلے کے اثرات کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یہی نہیں بعض اوقات میں متاثرہ شخص کو باقاعدگی سے ادویات لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ تاہم دمہ کے مریضوں کو عام طور پر ہر وقت انہیلر ساتھ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:

ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ دمہ کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ صحیح وقت پر صحت بخش اور متوازن خوراک لیں، نیند کے نظم و ضبط پر عمل کریں اور ایسی ورزشیں اپنائیں جو سانس لینے کی تکنیک اور صلاحیت کو بہتر بنائیں ساتھ ہی پھیپھڑوں کی صحت کو بھی مضبوط بنائیں۔ جیسے یوگا، مراقبہ، تیراکی استھما کے مریضوں کے لیے بہتر ورزش ہے۔ لیکن نریضوں کو مشاورت کے بغیر ورزش سے گریز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ انہیں کچھ چیزوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ کیونکہ تھوڑی سی لاپرواہی یا کوتاہی سنگین نتائج دے سکتے ہیں۔ یہی نہیں بعض اور خاص اوقات میں ان کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔ asthma patients 20 million in India

جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔

  • سانس لینے کے دوران گھرگھراہٹ کی آواز آنے پر۔
  • شدید کھانسی اور طویل سردی کے ہونے پر۔
  • سینے میں درد یا جکڑن محسوص ہونے پر۔
  • الرجی کے بار بار ہونے پر۔
  • سوتے وقت زیادہ بے چینی ہونے، سینے میں جکڑن محسوس ہونے، نیند میں دشواری یا سانس لینے میں دشواری ہونے پر۔
  • کسی دوا کے ریئیکشن ہونے پر

ڈاکٹر سولنکی بتاتے ہیں کہ ان علامات کے علاوہ بھی کچھ ایسی احتیاطی تدابیر بھی ہیں جن پر عمل کرکے دمہ کے اثر کو کافی حد تک کم کیا جاسکتا ہے جس سے دمہ کے مریض بھی نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ جیسے گھر سے باہر نکلتے وقت ماسک کا استعمال کریں، موسم کی تبدیلی کے دوران اپنی خوراک اور اپنے معمولات کا خاص خیال رکھیں۔ اگر موسم کے کنجیکٹیول پیریڈ یا سردیوں کے موسم میں مسائل بڑھ جائیں تو پہلے سے ڈاکٹر سے رابطہ کریں، اس کی تجویز کردہ دوائیں استعمال کریں، خاص طور پر انہیلر اور اس کی دی گئی ہدایات پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ دمہ کے مرض میں مبتلا افراد کو ٹھنڈے کھانے اور مشروبات، تمباکو نوشی، الکحل یا کسی بھی قسم کی نشہ آور اشیاء کے استعمال سے ہمیشہ دور رہنا چاہیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.