ETV Bharat / sukhibhava

Abortion Side Effects اسقاط حمل کے دوران پیش آنے والے مسائل

سپریم کورٹ نے اسقاط حمل سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین کو حمل کے24 ہفتوں تک میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی ایکٹ کے تحت اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔ یہ حق ان خواتین کو ہوگا جو اپنے ناپسندیدہ حمل جاری رکھنے پر مجبور ہیں۔

اسقاط حمل کے دوران پیش آنے والے مسائل
اسقاط حمل کے دوران پیش آنے والے مسائل
author img

By

Published : Sep 30, 2022, 1:07 PM IST

سپریم کورٹ نے خواتین کے حق سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق اب تمام خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔ چاہے خواتین شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، تمام خواتین محفوظ اور قانونی اسقاط حمل کی حقدار ہیں۔SC on Abortion under Law

لیکن بھارت کی حقیقت ان تمام فیصلوں کے برعکس ہے۔ بھارت میں آج بھی خواتین کے لیے شادی کے ساتھ ہی بچہ پیدا کرنا سب سے اہم چیز مانا جاتا ہے، چاہے اس کا دماغ یا جسم بچہ پیدا کرنے کی اجازت دیتا ہو یا نہیں۔ کئی بار خواتین کو اپنی مرضی کے خلاف پورے خاندان کی خواہش کی وجہ سے ماں بننا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر کسی خاتون کو کسی وجہ سے اسقاط حمل کروانا پڑ جائے تو اس کے لیے اسے پورے خاندان کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ Abortion Risks and Side Effects

وہیں کوئی عورت شادی سے پہلے حاملہ ہو جائے تو یہ اس کی زندگی کی سب سے خوفناک واقعہ ہوتا ہے۔ اور ایسے وقت میں اسے اسقاط حمل کے لیے کئی چور دروازے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ کئی بار معاشرے اور خاندان کے خوف سے لڑکیاں خودکشی کرلیتی ہیں۔ حالانکہ حمل اور اسقاط حمل پر سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ عورت شادی شدہ ہو یا نہیں، اسے اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔

حمل کے 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کی اجازت ہے۔

ملک میں اسقاط حمل کا قانون 1971 میں بنایا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ حمل کے 20 ہفتوں تک اسقاط حمل کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون میں 2021 میں ترمیم کی گئی تھی جس کے بعد اس وقت کی حد کو 20 ہفتوں سے بڑھا کر 24 ہفتے کر دیا گیا تھا۔ یعنی حمل کے 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، قانون میں کچھ حالات میں 24 ہفتوں کے بعد بھی اسقاط حمل کی اجازت تھی۔ قانون میں کہا گیا تھا کہ اگر عورت یا بچے کی ذہنی یا جسمانی صحت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے میڈیکل بورڈ کی منظوری لینی ہوگی۔

اب تک کے قانون میں شادی شدہ خواتین کو 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کرانے کی اجازت تھی۔ تاہم غیر شادی شدہ خواتین کو اسقاط حمل کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر کوئی خاتون رضامندی سے تعلق رکھنے کے بعد حاملہ ہو جاتی ہے، تو وہ 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کروا سکتی ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا نہ ہو۔ غیر شادی شدہ خواتین کے لیے اسقاط حمل کے حوالے سے قانونی رکاوٹ کا دور ہونا راحت کی بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کو اسقاط حمل کی صورت میں بہت سی دوسری چیزوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ Abortion Risks and Side Effects

اسقاط حمل کے منفی اثرات

خواتین کے اسقاط حمل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ طبی (میڈیکل) اور سرجیکل دونوں میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبی اسقاط حمل میں، خواتین کو سرجیکل اسقاط حمل کے مقابلے میں کئی دنوں تک بلیڈنگ ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ ایک ہفتے سے 10 دن تک رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی عام علامات ہوسکتے ہیں ہیں۔

  • پیٹ اور کمر میں درد
  • الٹی، چھاتی میں درد
  • سردی زخام
  • چکر کا آنا
  • اس کے علاوہ اندام نہانی سے خارج ہونے والا مادہ طبی اور جراحی دونوں طرح کے اسقاط حمل میں دیکھا جاتا ہے۔

اسقاط حمل کے ہلکے منفی اثرات سے کیسے نمٹا جائے

میڈیکل اور سرجیکل اسقاط حمل، سے ہونے والی معمولی پریشانیوں سے آپ گھر بیٹھے بھی چھٹکارا پاسکتے ہیں، مثال کے طور پر، اگر آپ کو پیٹ یا کمر کے نچلے حصے میں درد ہے، تو آپ ہیٹنگ پیڈ یا بوتل میں گرم پانی بھر درد کی جگہ کو سیک سکتے ہیں۔ یا درد سے نجات کے لیے ادویات لے سکتے ہیں، اگر چھاتی میں درد ہو تو ٹائیٹ فیٹنگ کپڑوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر قے ہو تو پانی، چائے، کافی کے علاوہ گرم مائع خوراک کا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

وہیں کئی مرتبہ اسقاط حمل کے بعد خواتین کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی کبھی جان جانے کا خطرہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ تو ایسے صورت حال میں خاتون کے اہل خانہ کو بغیر کسی تاخیر کے فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اسقاط حمل کے بعد سیلان خون

اسقاط حمل کے بعد تمام خواتین کو بلیڈنگ ہوتی ہے اور یہ چار، پانچ دن سے دو ہفتوں تک رہ سکتا ہے۔ لیکن خون اگر زیادہ آتا ہے تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔ اسقاط حمل کے دوران کسی بھی قسم کی چوٹ لگنے یا رحم میں بچے ہوئے جنین کے کچھ حصے کی وجہ سے بھی خون بہہ سکتا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک عورت کی ازدواجی حیثیت اسقاط حمل کے حق سے محروم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ عدالت نے کہا کہ تمام خواتین محفوظ اور قانونی اسقاط حمل کی حقدار ہیں۔ غیر شادی شدہ خواتین یا لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے والی خواتین کو میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی (ایم ٹی پی) ایکٹ سے خارج کرنا حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

سپریم کورٹ نے خواتین کے حق سے متعلق ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے مطابق اب تمام خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔ چاہے خواتین شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، تمام خواتین محفوظ اور قانونی اسقاط حمل کی حقدار ہیں۔SC on Abortion under Law

لیکن بھارت کی حقیقت ان تمام فیصلوں کے برعکس ہے۔ بھارت میں آج بھی خواتین کے لیے شادی کے ساتھ ہی بچہ پیدا کرنا سب سے اہم چیز مانا جاتا ہے، چاہے اس کا دماغ یا جسم بچہ پیدا کرنے کی اجازت دیتا ہو یا نہیں۔ کئی بار خواتین کو اپنی مرضی کے خلاف پورے خاندان کی خواہش کی وجہ سے ماں بننا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اگر کسی خاتون کو کسی وجہ سے اسقاط حمل کروانا پڑ جائے تو اس کے لیے اسے پورے خاندان کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ Abortion Risks and Side Effects

وہیں کوئی عورت شادی سے پہلے حاملہ ہو جائے تو یہ اس کی زندگی کی سب سے خوفناک واقعہ ہوتا ہے۔ اور ایسے وقت میں اسے اسقاط حمل کے لیے کئی چور دروازے تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ کئی بار معاشرے اور خاندان کے خوف سے لڑکیاں خودکشی کرلیتی ہیں۔ حالانکہ حمل اور اسقاط حمل پر سپریم کورٹ نے واضح کیا ہے کہ عورت شادی شدہ ہو یا نہیں، اسے اسقاط حمل کا حق حاصل ہے۔

حمل کے 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کی اجازت ہے۔

ملک میں اسقاط حمل کا قانون 1971 میں بنایا گیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ حمل کے 20 ہفتوں تک اسقاط حمل کیا جا سکتا ہے۔ اس قانون میں 2021 میں ترمیم کی گئی تھی جس کے بعد اس وقت کی حد کو 20 ہفتوں سے بڑھا کر 24 ہفتے کر دیا گیا تھا۔ یعنی حمل کے 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، قانون میں کچھ حالات میں 24 ہفتوں کے بعد بھی اسقاط حمل کی اجازت تھی۔ قانون میں کہا گیا تھا کہ اگر عورت یا بچے کی ذہنی یا جسمانی صحت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو تو ایسا کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کے لیے میڈیکل بورڈ کی منظوری لینی ہوگی۔

اب تک کے قانون میں شادی شدہ خواتین کو 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کرانے کی اجازت تھی۔ تاہم غیر شادی شدہ خواتین کو اسقاط حمل کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر کوئی خاتون رضامندی سے تعلق رکھنے کے بعد حاملہ ہو جاتی ہے، تو وہ 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کروا سکتی ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا نہ ہو۔ غیر شادی شدہ خواتین کے لیے اسقاط حمل کے حوالے سے قانونی رکاوٹ کا دور ہونا راحت کی بات ہے۔ لیکن اس کے باوجود خواتین کو اسقاط حمل کی صورت میں بہت سی دوسری چیزوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ Abortion Risks and Side Effects

اسقاط حمل کے منفی اثرات

خواتین کے اسقاط حمل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ طبی (میڈیکل) اور سرجیکل دونوں میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ طبی اسقاط حمل میں، خواتین کو سرجیکل اسقاط حمل کے مقابلے میں کئی دنوں تک بلیڈنگ ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ ایک ہفتے سے 10 دن تک رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی عام علامات ہوسکتے ہیں ہیں۔

  • پیٹ اور کمر میں درد
  • الٹی، چھاتی میں درد
  • سردی زخام
  • چکر کا آنا
  • اس کے علاوہ اندام نہانی سے خارج ہونے والا مادہ طبی اور جراحی دونوں طرح کے اسقاط حمل میں دیکھا جاتا ہے۔

اسقاط حمل کے ہلکے منفی اثرات سے کیسے نمٹا جائے

میڈیکل اور سرجیکل اسقاط حمل، سے ہونے والی معمولی پریشانیوں سے آپ گھر بیٹھے بھی چھٹکارا پاسکتے ہیں، مثال کے طور پر، اگر آپ کو پیٹ یا کمر کے نچلے حصے میں درد ہے، تو آپ ہیٹنگ پیڈ یا بوتل میں گرم پانی بھر درد کی جگہ کو سیک سکتے ہیں۔ یا درد سے نجات کے لیے ادویات لے سکتے ہیں، اگر چھاتی میں درد ہو تو ٹائیٹ فیٹنگ کپڑوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر قے ہو تو پانی، چائے، کافی کے علاوہ گرم مائع خوراک کا بھی استعمال کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں:

وہیں کئی مرتبہ اسقاط حمل کے بعد خواتین کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کبھی کبھی جان جانے کا خطرہ بھی پیدا ہوجاتا ہے۔ تو ایسے صورت حال میں خاتون کے اہل خانہ کو بغیر کسی تاخیر کے فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔

اسقاط حمل کے بعد سیلان خون

اسقاط حمل کے بعد تمام خواتین کو بلیڈنگ ہوتی ہے اور یہ چار، پانچ دن سے دو ہفتوں تک رہ سکتا ہے۔ لیکن خون اگر زیادہ آتا ہے تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔ اسقاط حمل کے دوران کسی بھی قسم کی چوٹ لگنے یا رحم میں بچے ہوئے جنین کے کچھ حصے کی وجہ سے بھی خون بہہ سکتا ہے۔ اس لیے اس مسئلے کو ہلکا نہیں لینا چاہیے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جمعرات کو ایک بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک عورت کی ازدواجی حیثیت اسقاط حمل کے حق سے محروم کرنے کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ عدالت نے کہا کہ تمام خواتین محفوظ اور قانونی اسقاط حمل کی حقدار ہیں۔ غیر شادی شدہ خواتین یا لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے والی خواتین کو میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی (ایم ٹی پی) ایکٹ سے خارج کرنا حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.